حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(تذکرۃ الخلیل۵۸)حسن ادب اور کمال محبت : حضرت مولانا کو اپنے شیخ ومرشدحضرت گنگوہی سے جو کمال عشق ومحبت حاصل تھا اس کے مظاہر تو آپ حضرت مولانا کے حالات زندگی پڑھ کر معلوم کریں گے، آپ کی شروع سے آخرتک یہ خواہش اور دعا رہی: تیرے جگر کی تجھ سے اک التجا یہی ہے اپنے جگر کو اپنے دل سے جدا نہ کرنا پھر آپ نے اس خواہش اور تمنا کو اپنی طرف سے پورا کردکھایا اس حسن ادب اور عشق ومحبت کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے کہ جب حضرت گنگوہی نے یہ فرمایا کہ یہ تو اعلیٰ حضرت کاعطیہ ہے تو آپ نے بکمال عجزونیا زیہ عرض کیا: ’’میرے لئے تو وہی مبارک ہے جو آنحضرت کی طرف سے عطا ہو نیز یہ بھی عرض کیا کہ اجازت نامہ درحقیقت شہادت ہے کسی مسلمان کے ایمان کی لہذا دو مقبول شہادتیں ثبت ہوں گی، تو ہر شخص کے نفسی نفسی پکارنے کے وقت بارگاہ خداوندی میں پیش کرسکوں گا، حضرت امام ربانی آپ کے اس حسن ادب سے کہ اصل کمال یہی ہے، بہت خوش ہوئے اور خلافت نامہ پر دستخط فرماکر مع دستار کے حوالہ فرمادیا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۵۸)شیخ سے تعلق اور علو مرتبت : حضرت مولانا کو حضرت گنگوہی سے بیعت ہونے سے لے کر آخر عمر تک جو تعلق رہا اور مرشدومسترشد کے درمیان جو محبت بلکہ عشق کے درجہ تک کیفیت رہی وہ اپنی جگہ خود قابل رشک تھی، اسی محبت وعشق کا نتیجہ تھاکہ حالات وکیفیات میں ترقی ہوتی گئی اور حضرت مولانا کو خدا جانے اس بلند وبالا مقام تک پہنچادیا کہ کم ایسے قسمت والے ہوں گے، جن کو محبت شیخ کی ایسی دولت ملی ہوگی اور کم ایسے شیخ ہوں گے جن کو مرید سے ایسا تعلق ہوگا اور اس نعمت عظمیٰ سے جس طرح ہمکنار ہوئے اور علو مرتبت کو پہنچے اس کا اندازہ ان خطوط سے ہوتاہے جو آپ اور آپ کے شیخ ومرشد کے درمیان آخر عمر تک آتے جاتے رہے، اس موقع پر چند خطوط یا ان کے اقتباسات دئیے جارہے ہیں۔ ایک مکتوب میں حضرت گنگوہی حضرت مولانا کو تحریر فرماتے ہیں: ’’واردات رجوع الی اللہ موجب فرحت ہیں، حق تعالیٰ کا نہایت شکر کرنا لازم کہ یہ بڑی نعمت کبریٰ ہے کہ بمقابلہ اس کے لاکھوں جہاں مثل پریشہ بھی نہیں اور اس احقر کو نہایت باعث شکر وافتخار ہے کہ اگر خود ایسی عطیات سے محروم ہے بارے احباب کو عطائے متواتر ہے: