حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت مولانا شوال میں روانہ ہوکر ذیقعدہ ۳۳ھ کو مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ایک کرامت : حضرت مولانا جس جہاز پر سفر کررہے تھے وہ جب عدن پہنچا تو کوئلہ بھر نے کے لئے ٹھہرا، جنگ عظیم کی وجہ سے جگہ جگہ سنسر اور سفرمیں دشواریاں تھیں، کوئلے کی اور کوئلہ بھرنے والے کی بہت کمی تھی، عدن پہنچنے سے پہلے ایک اور جہاز اسی پریشانی میں مبتلا رہ کر کئی دن رکا رہا اور کوئلہ نہ ملنے کی وجہ سے پورٹ سوڈان جانا پڑا تھا، لیکن آپ کے ساتھ خدا کا معاملہ دوسرا تھا، شرکاء سفر بہت پریشان تھے آپ نے فرمایا بھئی پریشانی سے کیا نتیجہ، اللہ کارساز ہے۔ خدا کا کرنا کہ ایک اسٹیمر کوئلے کی بھری دوکشتیاں کھینچتا لایا اور جہاز کے کپتان کے سپرد کرگیا اور جہاز بغیر کسی دشواری کے آگے روانہ ہوگیا اور بخیروعافیت اپنے وقت پر جدہ پہنچ گیا۔ حضرت مولانا ۲۲ذیقعدہ کو مکہ مکرمہ پہنچے آپ کا ارادہ تھا کہ اس دیارمبارک میں زیادہ سے زیادہ قیام کریں گے، اس سفر میں آپ کو بعض بڑے ناموافق حالات سے دوچار ہونا پڑا، ہندوستان سے تو اس لئے سفر کیا تھا کہ حکومت ہند ترکی مسلمانوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ لینا چاہتی تھی اور جب حجاز پہنچے تو ترکی حکومت کو اپنے سے بدگمان پایا اور خفیہ پولیس کی نگرانی شب وروز اس خیال سے رہی کہ آپ انگریزوں کی رعایا ہیں اور ان کے ہم خیال، آپ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو ترکی افسروں سے مل کر فرمایا: ’’عجیب بات ہے برطانوی حکومت ہم کو بحیثیت اتحاد مذہب ترکی کا خیر خواہ سمجھ کر بدگمان ہے اور ترکی حکومت محض ہندی باشندہ ہونے کے لحاظ سے ہم پر مطمئن نہیں، پھر آخر مسلمان اپنی مذہبی زندگی عافیت کے ساتھ گزارنے کے لئے کونسا ملک ڈھونڈیں۔‘‘ لیکن عجیب بات ہے کہ آپ کے اطمینان دلانے کے بعد بھی حکومت ترکی کو اطمینان نہ ہوا اور آپ آزادی وسکون کے ساتھ حجاز میں قیام نہ فرماسکے۔آپ کی غیبوبیت کا اہل مدرسہ پر اثر : آپ کے سفر حجاز کی مع ان ایام کے جوسہارنپور سے چلنے اور سہارنپور تک واپس ہونے میں لگے، مدت ۱۴ ماہ تھی یعنی وسط شوال ۳۳ھ سے لے کر ۶ذی الحجہ ۳۴ھ تک آپ مدرسہ سے باہر رہے، اتنی طویل غیبوبیت کا متعلقین، خدام اور اہل مدرسہ پر بہت اثر تھا، مدرسین، ممبران، طلباء سبھی آپ کے فراق میں باچشم گریاں، بادل بریاں تھے، آپ کے ماننے والوں میں ہزاروں آدمی دوبارہ واپسی اور جلد واپسی کے لئے دعا گوتھے اور چشم براہ، آپ کی کمی اتنی شدید طور پر محسوس کی جارہی تھی کہ مدرسہ کا ہر شخص اپنے آپ کو یتیم سمجھ رہاتھا اور بے چین ومضطرب تھا اور ہرایک کا حال ان شعروں کے مصداق بنا ہوا تھا ؎ اتنا پیغام درد کا کہنا جب صبا کوئی یار سے گزرے کون سی رات آپ آئیں گے دن بہت انتظار میں گزرے