حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوائے دل وہ دوکان اپنی بڑھاگئے۔‘‘تیسراحج : حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے حادثۂ انتقال کے بعد آپ کو جو بے چینی اور اضطراب ہوا اس کی وجہ سے کسی وقت جی نہیں لگتا، چونکہ آپ کو مدینہ منورہ سے والہانہ محبت تھی اور وہیں جاکر آرام حاصل ہوسکتا تھا ، اس لئے آپ نے یہی سوچا کہ مدینہ منورہ تشریف لے جائیں اور کچھ عرصہ تک وہاں قیام کرکے سکون وراحت حاصل کریں اور اپنا غم غلط کریں۔ آپ کی اس کیفیت کی عکاسی حضرت شیخ الحدیث اس طرح فرماتے ہیں: ’’تیسرا حج حضرت قطب عالم گنگوہی قدس سرہٗ نوراللہ مرقدہٗ کے حادثۂ انتقال کی بنا پر ہوا تھا کہ اس حادثۂ جانکاہ کا اثر حضرت قدس سرہ کے قلب مبارک پر جتنا ہونا چاہئے تھا ظاہر ہے اور اس کا مدار اور تسلی روضۂ اقدس پر حاضری ہی سے ہوسکتی تھی۔‘‘ (مقدمہ اکمال الیشم ۳۰) آپ کی اہلیہ محترمہ کے پاس اپنے شوہر کا عطیہ زیور تھا جس کو تقریبا ڈیڑھ سو روپے میں فروخت کرکے زمین خریدلی تھی، ۱۳۲۳ھ میں اس زمین کو فروخت کرڈالا جس کی قیمت پانچ سو روپیہ ملی، حضرت مولانا کو اس فروختگی کے بعد خیال آیا کہ بیوی پر حج فرض ہوگیا تو آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا، تم پر حج فرض ہوگیا ہے اس کو ادا کرنے کا اہتمام کرو، اس فرمانے کے بعد خودبھی حج کرنے کا ارادہ فرمانے لگے، اگرچہ اہلیہ محترمہ کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ دونوں حج کرسکتے ، اور حضرت مولانا محرم بن کر ساتھ ہوسکتے … مگر آپ کے حج کا محرک آپ کا وہ فطری شوق وذوق تھا جو بار بار آپ کو دیارحرم کی طرف کھینچتا تھا ، آپ نے اپنی تصنیف’’مطرقۃ الکرامۃ‘‘ کے نسخے فروخت کرکے ایک رقم حاصل کی اور اپنی اہلیہ اور اپنی صاحبزادے کو جن کے شوہر مجنون ہوگئے تھے اور وہ ہمیشہ مغموم ومتفکر رہا کرتی تھیں لے کر حج کو تشریف لے گئے، آپ کا یہ مبارک سفر آخر شوال ۱۳۲۳ھ میں شروع ہوا، پورا سفر بڑے کیف وسرور سے کیا، جتنا جتنا حرم قریب آتا کیف وسرور میں اضافہ ہوتا جاتا اور مرشد ومربی ؒ کے فراق کا غم ہلکا پڑجاتاتھا، حجاز پہنچے، حج فرمایا، یہ وہ پہلا حج تھا جو حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی کی وفات ۱۳۱۷ھ کے بعد کیا، حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد مدینہ منورہ کا سفر کیا اور آستانۂ نبوی پر حاضری دی تو جیسے کسی نے زخم پر مرہم کا پھایہ رکھ دیا ہو۔ آپ جس وقت مدینہ منورہ پہنچے اس وقت حرم نبوی میں حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی درس دیا کرتے تھے او ران کا اور ان کے خاندان کا بڑا اثر تھا، وہ آپ کے شاگردومعتقد تھے اور آپ کا بڑا ادب کرتے تھے، آپ کے تشریف لے جانے سے ان کو قلبی مسرت ہوئی اور انہوں نے علماء مدینہ سے آپ کو ملایا، اور آپ کا درس شروع کرادیا۔حرم شریف میں آپ کا درس : جتنے دن آپ نے مدینہ منورہ میں قیام کیا حدیث شریف کا درس دیا، آپ کے درس میں طلباء اور علماء کثرت سے شریک ہونے لگے، ان میں بہت سے ایسے تھے جنہوں نے مسند حدیث بھی لی اور باوجود اہل علم وفضل ہونے کے آپ کے حلقۂ درس میں بیٹھے، اور