حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دشواری اور رکاوٹ کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور پہلی صف میں پہنچ جاتے تھے مولانا سید اصغر حسین صاحب دیوبندی جو حضرت مولانا کے آخری سفر حج میں ساتھ تھے اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں: ’’احقر جس زمانہ میں مدینہ منورہ میں مقیم تھا گرمی نہایت شدید تھی اور مسجد نبوی کی پہلی صف میں نماز پڑھنا نہایت دشوار تھا مغرب اور عشاء بلکہ فجر کی نماز میں بھی ہزار ہا نمازی اندرون مسجد کو چھوڑ کر صحن مسجد میں نماز ادا کرتے تھے لیکن میں نے دیکھا کہ حضرت ہمیشہ پنجوقتہ صف اول میں ممبر مبارک کے متصل نماز اد اکرتے(۱)تھے نماز کے بعد جب احقر مکان پر حاضر ہوتاتو بطور خوش طبعی ولطافت کے فرماتے کہو سید صاحب آج کون سی صف میں نماز پڑھی؟احقر مطابق واقعہ کے چوتھی یا پانچویں صف میں نماز پڑھنا بیان کرتا اور کہتا تھا کہ حضرت پہلی اور دوسری صف میں گرمی ناقابل برداشت ہوجاتی ہے فرماتے کہ بھائی یہاں تو ضعف اور بڑھاپے کی وجہ سے گرمی کا احساس ہی نہیں ہوتا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۳۶۳)مواجہ شریف پر : حضرت مولانا جب بھی مواجہ شریف پر حاضر ہوتے تو قلب و دماغ کی عجیب حالت ہوجاتی ،ادب و احترام،عشق و محبت ،خوف و شفقت ،جذب و شوق کیف و سرور کا عالم ہوتا ،آنکھیں نیچی آواز پست قدموں میں لغزش قلب میں سوزش سب سے الگ ڈرے سہمے ایک طرف کھڑے ہوکر سلام عرض کرتے اور آپ کا مو گویا ہوتا۔ مرحبا سید مکی مدنی العربی دل و جاں با وفدایت چہ عجیب خوش من بے دل بجمال تو عجب حیرانم اﷲ اﷲ چہ جمالست بدیںبوالجبی چشم رحمت بکستاسوئے من انداز نظر (۱) اس زمانہ میں موسم حج کے علاوہ نمازیں محراب نبوی میں ہوتی تھیں اورحضرت کا مصلیٰ محراب کے سامنے ہوا کرتاتھا۔ اے قریشی بقی ہاشمی و مطلبی ماہمہ تشنہ لبا و توئی آب حیات رحم فرماکہ زحدمی گزروتشنہ لبی عاصیانیم زمانیکی اعمال مپرس سوئے ماروئے شفاعت مکن ازبے سببی سیدی انت حبیبی و طبیب قلبی آمدہ سوئے تو قدسی پئے درمان طلبی