حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابتدائی منزل قرار دیتے تھے ،آپ نے مدرسہ میں اسکا مکمل نظام قائم کیا درجہ کھولا ادھر پوری توجہ دی، ان مدارس میں عمومی طور پر بنگالی طلبہ زیادہ آتے تھے اور وہ آیات قرآنی کی ادائیگی میں غلطیاں کرتے تھے ،اس لئے حضرت مولانا نے اس خامی کو دور کرنے کی پوری فکر کی،مولانا عاشق الٰہی میرٹھی لکھتے ہیں: ’’طلبہ میں بالعموم اور بنگالیوں میں بالخصوص قرآن مجید پڑھنے میں صحت لفظی تک کا خیال نہ ہونا آپ کے لئے بہت تکلیف دہ تھا اس لئے آپ نے مدرسہ میں تجوید کے درجہ کا اضافہ کیا اور کئی قاری ادل بدل کے بعد قاری عبدالعزیز صاحب کو جو کہ جو ان، صالح ، وجیہہ تھے اور چار سال مدینہ منورہ میں تجوید سیکھ کر سہارنپور بغرض تحصیل علم آئے تھے اس خدمت کے لئے انتخاب فرمایا کہ خود دینیات کی تکمیل کریں اور طلبہ کو فن تجوید کی کتابیں بھی پڑھائیں اور مشق بھی کرائیں ،چنانچہ مدرسہ خوش الحانی و صحت لفظی کے ساتھ تلاوت کلام اﷲ سے گونجہ اٹھا اور چند ہی ماہ میں اس ضرورت کی بہت کچھ مکافات آپنے آنکھوں سے دیکھ کر اس درجہ کو مستقل بنادیا کہ اکثر طلبہ گو حافظ نہ ہوئے مگر قاری اور مجود ہوکر مدرسہ سے نکلے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۲۱۰)تعلیمی امور میں سختی : حضرت مولانا نے اپنی پوری مدت ملازمت و نظامت میں تعلیمی امور میں سختی کی ،امتحان بھی سخت لیتے مگر صحیح جواب پر نمبر بھی اچھے دیتے تھے ،تعلیمی امور میں طلبہ کی رعایت کے قائل نہ تھے نہ خود نرمی اور رعایت کرتے نہ اس کو پسند فرماتے،مولانا عاشق الٰہی میرٹھی تذکرۃ الخلیل میں لکھتے ہیں: ’’حضرت طلبہ کے متعلق تعلیمی امور میں بہت سخت تھے اور امتحان میں کسی اونی رعایت کو بھی پسند نہ فرماتے تھے ،اسی طرح طلبہ کی علمی و اخلاقی حالت پر بھی سخت نظر ڈالا کرتے اور کیسا ہی کسی عزیز یا دوست کا بچہ ہو جب اس کی بدو ضعی یا آزادی کو محقق فرمالیتے تو بے تامل مدرسہ سے خارج کردیتے اور جب تک وہی اپنی حالت پر نادم ہوکر سچی توبہ نہ کرے اس کے ولی و وارث کی کوئی سفارش نہ سنتے تھے۔‘‘چنانچہ ایک مرتبہ اپنے ایک قریبی رشتہ دار کو اتنی بات پر کہ انہوں نے حضرت کی قرابت کے ناز پر اپنے استاذ کا احترام و آداب ملحوظ نہ رکھا تھا فوراً مدرسہ کی کتابیں واپس کرنے کا حکم دے دیا اور جب تک خود استاذنے حضرت سے سفارش نہ کی اس وقت تک واپس کردہ وہ کتابیں ان کو دوبارہ نہ دی گئیں۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۲۲۳)طلبہ سے تعلق و محبت : تعلیمی امور میں سختی سے باوجود آپ نے طلبہ کے ساتھ مدالعمر وہ معاملہ کیا جو ایک شفیق باپ اپنے بیٹے کے ساتھ کیا کرتا ہے طلبہ پر کسی قسم کی زیادتی برداشت نہ کرتے تھے ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف ان کی راحت کو اپنی راحت جانتے تھے ایسے موقعوں پر جبکہ طلبہ پر کسی قسم کی زیادتی یا ان کی معمولی حقوق تلفی بھی دیکھتے تو بیچین ہوجاتے اور اس کے مکافات کی کوشش فرماتے تھے بعض دفعہ ایسے مواقع پر منتظمین تک سے جواب طلب کیا اورتر شروئی سے پیش آئے ۔مولانا عاشق الٰہی صاحب اپنا مشاہدہ اس طرح لکھتے ہیں۔