حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آٹھواں باب آخری حج اور زیارت مدینہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت مولانا کو دریار حرم سے عشق نصیب فرمایا تھا مدینہ منورہ سے تعلق کا حال یہ تھا کہ ہر وقت اس کی زیارت کی تمنا دل میں رہتی اوراس کے تصور میں ڈوبے رہتے یہ عشق و محبت کا جذبہ ہوش سنبھالتے ہی آپ کو ودیعت کردیا گیا تھا اور کوئی نہ کوئی موقع حجاز جانے کا تلاش کرتے رہتے ،مدینہ منورہ کے فراق میں بے چینی سے دن کاٹتے ،مولانا عاشق الٰہی صاحب حضرت مولانا کے شوق مدینہ اور زیارت آستانہ نبوی کی تمنا کے متعلق لکھتے ہیں: ’’باوجود کرہ استقلال ہونے کے عشق رسول کی آگ آپ کی رگ رگ میں اتنا اثر کر گئی تھی کہ آپ نے بارہا عرب کا سفر صرف اسی شوق و آرزو میں کیا کہ ہر مرتبہ آپ کی ہجرت کا شور عوام کی زبانوں پر پہنچا آخر جب وقت آیا تو وہ پورا ہوکر رہا اور وہ آتش ذاق بلقائی محبوب ٹھنڈی ہوئی جس نے آپ کو صرف ایک دروازہ کا بنا رکھا تھا مجھے خوب یاد ہے کہ آپ مولانا تھانوی کا وعظ بڑے شوق سے سنتے اور کبھی کبھی فرمایا کرتے کہ مجھے تو مولانا کے وعظ میں اس شعر پر بڑا مزا آتا ہے ؎ ہمہ شہر پر زخوباں منم دخیال ماہے چہ کنم کہ چشم بد خو تکند بکس نگا ہے یہ بھی میں نے دیکھا ہے کہ آپ جب اس شعر کو سنتے تو چہرہ کا رنگ بدل جاتا اور وجد کی کیفیت آپ پر طاری ہوتی جس کو آپ ضبط فرماجایا کرتے۔ اس عشق و مستی اور دردو سوز نے آپ سے سات حج کروائے اور ہر دفعہ اس مبارک دیار میں بس جا نے اور اسی خاک پاک میں سوجانے کی تمنا لیکر حج کئے۔آپ کے استاذ مولانا فیض الحسن صاحب سہارنپوری نے کبھی شوق طیبہ میں چند شعر کہے تھے وہ اشعار آپکے ذوق و شوق کی پوری ترجمانی کرتے ہیں۔ تمنا ہے کہ ہر ہر بال کی سو سو بلائیں لوں