حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آگے بڑھی… دوسرے دن آپ نے بھرے مجمع میں اپنے واقعات سفروگرفتاری مفصل سنائے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۳۹۷)تنخواہ لینے سے انکار : حضرت مولانا جب سہارنپور پہنچے تو دیکھا کہ مدرسہ میں سب کچھ ہے مگر مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلوی نہیں ہیں ، آپ کو تاثر تو پہلے سے تھا اب وہ مقصد بھی نہ رہا جس کے لئے مولانا محمد یحیٰ صاحب گنگوہ سے آئے تھے ،آپ ہی نے ان کو اس لئے بلایا تھا کہ وہ آپ کے ساتھ تدریس میںشریک رہیں گے ،آپ نے مدرسہ پہنچتے ہی تنخواہ لینے سے انکار فرمادیا اور ذمہ داران مدرسہ کو تحریر فرمایا: ’’میں عرصہ سے خدمت مدرسہ سے معذور ہوں اس لئے مولانا محمد یحی صاحب کو بلایا تھا وہ میری مدد کرتے تھے اب وہ بھی رحلت کرگئے ، بجز ا سکے چارہ نہیں کہ اپنے بار سے مدرسہ کو سبکدوش کردوں۔‘‘ خلیل احمد ۲۱صفر ۳۵ھ ۔ (تاریخ مظاہر دوم: ۱۲) حضرت شاہ عبدالرحیم رائپوری کو جو سرپرست مدرسہ بھی تھے حضرت مولانا سے بہت تعلق تھا اور ہمیشہ انہوں نے آپ کا ساتھ دیا اور آپ کی ہر پریشانی کو دور کرنے کی فکر کی وہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ تنخواہ نہ لے کر اقتصادی پریشانی میں پڑیں، اس لئے انہوں نے آپ کی اس درخواست پر تحریر فرمایا: ’’حضرت کو راضی کیاجائے کہ تنخواہ لیں اور کام کا بار نہ ڈالاجائے ورنہ حضرت سرپرست اور باقی سب مشیر بنائے جائیں اور یہ بھی نہ ہو تو میرا بھی استعفیٰ ہے، میں بھی ضعیف ہوگیا۔‘‘ عبدالرحیم ۲۲صفر (تاریخ مظاہر دوم: ۱۲) حضرت مولانا نے جب حضرت رائپوری کا یہ جواب دیکھا تو ان کی محبت وتعلق کا دل پر بہت اثر پڑا، آپ نے فوراتحریر فرمایا: ’’صرف تنخواہ لینے سے انکار ہے مدرسہ کی خدمت بدستور کروں گا اور مجبور ہوا تو کچھ امداد بھی لے لوں گا۔‘‘ثبات قدمی اور صبروقناعت : حضرت مولانا نے جو ارادہ فرمایا اس پر ثابت قدم رہے تنخواہ نہ لی اور حبۃ للہ مدرسہ کی اسی طرح خدمت کرتے رہے جس طرح پہلے کرتے تھے کچھ دنوں تو کوئی دقت پیش نہیں آئی لیکن بعد میں بعض شدید الجھنیں اورپریشانیاں درپیش ہوئیں، مہمانوں کی آمدورفت اسی طرح تھی جیسے پہلے تھی اخراجات بڑھتے رہے اورمدرسہ سے آمدنی بند ہوگئی، تنخواہ لینے پر کسی طرح دل آمادہ نہیں ہوا جب دیکھا کہ شہر میں رہ کر اس طرح زندگی گزارنی مشکل ہے تو انبہٹہ جاکر سکونت اختیار کرنے کاارادہ کرلیا بلکہ جانے کاسامان بھی شروع کردیا۔ آپ کے جانے کی خبر جب شاہ عبدالرحیم رائپوری کو پہنچی تو ان کو بڑی فکر دامنگیر ہوگئی اور یہ خیال کرکے کہ آپ کے مدرسہ چھوڑدینے سے مدرسہ بالکل خالی ہوجائے گا اور اس کی بہار رخصت ہوجائے گی اس لئے کہ مدرسہ میں جو کچھ باغ وبہار ہے وہ آپ کے دم قدم سے ہے اس لئے حضرت شاہ صاحب نے آپ سے پھر تنخواہ لینے پر اصرار کیا اور تحریر فرمایا: ’’نہایت لجاجت واصرار سے درخواست ہے کہ آپ کا مجھ سے وعدہ تھا کہ تو جب کہے گا تنخواہ لوں گا لہٰذا اب انکار نہ فرمائیں۔‘‘ (تاریخ