حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
جگہ اس مقصد کے لئے ایک جلسہ ہو اور متعین راہ طے کی جائے۔ ۱۳۱۱ھ میں اسی مدرسہ فیض عام میں اس مقصد کے لئے دوسرا جلسہ ہوا جس میں حضرت مولانا اور دوسرے علماء دیوبند شریک نہ ہوسکے، مگر مختلف مکتب خیال کے علماء کا ایک اجتماع ہوا،اس اجتماع میں ندوۃ العلماء (۱)کی تشکیل ہوئی۔آپ کے زمانۂ درس کے ارباب شوریٰ طلباء اور اساتذہ : مولانا سید عبدالحی صاحب سابق ناظم ندوۃ العلماء نے ۱۳۱۲ھ میں دہلی، سہارنپور، دیوبند، گنگوہ، منگلور اور انبہٹہ اور دوسرے علمی مراکز اور تاریخی مقامات کا سفر کیا تھا، اس سلسلے میں آپ دیوبند بھی گئے تھے،یہ زمانہ مولانا محمد منیر صاحب نانوتوی کے اہتمام، حضرت گنگوہی کی سرپرستی اور حضرت مولانا محمود حسن صاحب اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کی مدرسی کا تھا، مولانا موصوف نے دیوبند اور اس کی شخصیات، دارالعلوم، اس کے طلباء اور اساتذہ تعلیم وتدریس، ارباب شوریٰ اور اس کی ہنگامہ آرائی کاحال اور تفصیل لکھی ہے، میں ان کے سفرنامہ سے چند اقتباسات پیش خدمت کرتاہوں۔ ’’جمعہ کی نماز کے واسطے جامع مسجد آئے، مولوی خلیل احمد صاحب انبہٹوی مدرس دوم مدرسہ عربیہ نے نماز پڑھائی، اس کے بعد مولوی محمد زکریا صاحب نے وعظ فرمایا، یہ مولوی عبدالخالق صاحب کے بڑے صاحبزادے ہیں، اور مولوی عبدالخالق صاحب مولوی شمس الدین مصنف ’’شریعت کالٹھ‘‘ کے خلف الصدق ہیں۔‘‘ (سفرنامہ دہلی اور اس کے اطراف ۶۳)مدرسہ کے متعلق رقم طرازہیں : ’’مدرسہ کا امتحان ہورہا تھا پرچے تقسیم کردئیے گئے تھے، طلباء جواب لکھ رہے تھے، سب (۱) ندوۃ العلماء کے تخیل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ۱۳۱۵ھ میں دارالعلوم کے نام سے ایک درسگاہ لکھنو میں قائم کی گئی، ندوۃ العلماء اور دارالعلوم کے تفصیلی حالات جاننے کے لئے ’’تاریخ ندوۃ العلماء‘‘ اور ’’روداد چمن‘‘ ملاحظہ کیجئے۔ طلباء الگ الگ بٹھائے گئے تھے، چاردن سے امتحان ہورہاتھا کم سے کم دس بارہ دن تک ہوگا، تقریبا تین سو طلباء مدرسہ میں ہیں، اکثر مدرسہ کے مکانوں میں رہتے ہیں اور بعض مسجدوں میں ان میں دوسو سے زیادہ باہر کے ہیں، اور ڈیڑھ سو ان میں وہ ہیں جن کے خوردونوش کا مدرسہ متکفل ہے۔‘‘ (ایضا۱۰۴)مدرسین کی تعداد اور ان کی استعداد کے متعلق رقم طراز ہیں : ’’اس مدرسہ میں سات مدرس عربی کے ہیں جن کو تنخواہ ملتی ہے اور ایک مدرس بلا تنخواہ بطور اعانت کے پڑھاتے ہیں، مدرسین عربی میں سے مدرس اول مولانا محمود حسن صاحب ہیں، یہ بزرگ مولوی ذوالفقار علی صاحب ادیب مشہور کے صاحبزادے ہیں، اور مولانا محمد قاسم صاحب مرحوم کے عمدہ شاگردوں میںسے ہیں، ان کی استعداد ہر فن میں خصوصا دینیات میں اعلیٰ درجہ کی ہے۔ سب طالب علم ان کی تعریف کرتے ہیں، دوسرے مولوی خلیل احمد صاحب ہیں جو مدرس دوم ہیں،یہ مولانا مملوک علی صاحب کے