حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس اشتہار اور تحریر کے بعد حضرت گنگوہی کے بہی خواہوں میں اور تشویش پیدا ہوئی انہوں نے حضرت سے عرض کیا ، حضرت نے ان کو تشفی دی اور فرمایا ان کے کرنے سے کچھ نہ ہوگا جب خدانے اس وقت ہم کو محفوظ رکھا تو اب بھی محفوظ رکھے گا۔(۱) (۱) ماخوذ از ’’دہلی اور اس کے اطراف‘‘ مرتبہ مولانا سیدعبدالحی ص۱۰۰ ، یہ روایت مولانا سید عبدالحی صاحب نے اپنے سفرد یوبند ۱۳۱۲ھ کے درمیان حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن سے سن کر حتی الوسع ان کے الفاظ میں نقل کی ہے۔تحریک ندوۃ العلماء کی تائید اور اس کے پہلے جلسے میں شرکت : ۱۳۱۰ھ مطابق ۱۸۹۲ء میں کانپور کے مدرسہ فیض عام میں دستار بندی کا ایک جلسہ ہوا، اس جلسہ میں ہندوستان کی مقتدر ہستیاں اور علماء کرام جمع ہوئے، علماء کے اس اجتماع کو غنیمت سمجھاگیا، اور مولانا سیدمحمد علی مونگیری (۱)نے ایک مجلس منعقد کی اور اس میں ندوۃ العلماء کی تحریک کا تخیل پیش کیا جس کے دو بنیادی مقاصد تھے، رفع نزاع باہمی( علماء کا باہمی نزاع خصوصیت کے ساتھ اور عام مسلمانوں کاعمومیت کے ساتھ) اور اصلاح طریقۂ تعلیم۔ مولانا سید محمد علی مونگیری کی منعقد کی ہوئی اس مجلس میں جوخالص اسی مقصد سے منعقد کی گئی تھی حضرت مولانا خلیل احمدصاحب سہارنپوری ، حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی، حضرت مولانا احمد حسن صاحب کانپوری، مولانا فخر الحسن صاحب گنگوہی، مولانا ثناء اللہ صاحب امر تسری، شاہ سلیمان صاحب پھلواری، مولانا لطف اللہ صاحب علی گڑھی اور مولانا سید ظہورالاسلام صاحب فتح پوری اور مولانا سید محمد علی صاحب مونگیری موجود تھے اور ان کے علاوہ اور دوسرے علماء نے بھی شرکت کی، چونکہ اس تحریک کی اساس خالص دینی تھی اور اس میں طبقۂ علماء کو مرکزی مقام دیا گیا تھا اور اس کا اولین بنیادی مقصد رفع نزع باہمی تھا جس کا تعلق سب سے پہلے علماء کے مذہبی وفقہی نزاعات واختلافات سے تھا جو حکومت اسلامیہ کے زوال ہی سے شروع ہوگئے تھے اور نوبت مجادلے سے بڑھ کر مقاتلے تک پہنچ گئی تھی اور پھر تکفیر وتفسیق کابازار گرم ہوگیا تھا اور سارا ہندوستان اس کی وجہ سے ایک مذہبی دنگل کا میدان بن گیاتھا، یہ صورت حال ایسی تھی جو خود حضرت مولانا کے حساس دل پر چوٹ لگارہی تھی، آپ جب دستار بندی کے جلسے میں تشریف لائے اور ندوۃ العلماء کے اس تخیل کو سنا اور دیکھا تو اس تحریک کی آپ نے تائید فرمائی دوسرے علماء اور مشائخ کی تائید اور تقریب میںپوری شرکت فرمائی۔ (۱)مولانا محمد علی کانپو ر میں پیدا ہوئے ، مفتی عنایت احمد کاکوری اور مفتی لطف اللہ علی گڑھی سے علم حاصل کیا، فیض عام میں مدرس ہوئے پھر سہانپور جاکر مولانا احمد علی محدث سے حدیث پڑھی، مولانافضل رحمن گنج مراد آبادی سے علم سلوک حاصل کیا اور مجاز ہوئے، مونگیر میں مدت تک قیام کیا اور آپ کی طرف رجوع عام ہوا، قادیانیوں ،عیسائیوں سے مناظرہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ ۱۲۱۰ھ میں ندوۃ العلماء کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے ناظم مقرر ہوئے۔ علماء کے اس اجتماع نے یہ طے کیا کہ کوئی ایسا مرکزی ادارہ بنایاجائے جس میں ہرخیال کے علماء مل بیٹھیں اور اگلے سال کسی