حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
کے ساتھ توضیح تلویح اور ہدایہ اخیرین کے اسباق بھی آپ کے سپرد تھے، ادب کی کچھ کتابیںبھی آپ کے ذمہ کی گئی تھیں، اور ان ساری کتابوں کو آپ بڑے اہتمام سے پڑھاتے تھے، طلباء کے ساتھ آپ کا معاملہ مربیانہ اور مشفقانہ تھا، آپ صرف مدرس ہی نہ تھے بلکہ شفیق استاذ اورگویا محبت کرنے والے باپ بھی تھے، طلباء آپ کے علم کے ساتھ ساتھ آپ کے زہد وورع، تعلق باللہ اور محبت وشفقت سے متاثر ہوتے تھے ، بڑے سے بڑے مخالف آدمی بھی آپ کی ان صفات سے منکر نہ تھے، = حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے خلیفہ اور مجاز تھے، صاحب فضل وکمال ،عابد وزاہد وذکی اور عالی استعداد تھے، متعدد بار حج کیا، ۱۲۹۴ھ میں کئی بزرگوں اور علماء کی جماعت کے ساتھ حج کو تشریف لے گئے، حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی م۱۳۱۷ھ مولانا رحمت اللہ کیرانوی م۱۳۰۸ھ شاہ عبدالغنی محدث م ۱۲۹۶ھ سے استفادہ کیا، علم وعمل کے ساتھ تحریک آزادی سے گہری دلچسپی تھی، آزادی ملک کی خاطر بڑی تکلیفیں اٹھائیں، انگریزی استعمار کے خلاف جنگ کی اور ریشمی رومال کی تحریک چلائی، ۱۳۳۵ھ میں حجاز میں گرفتار ہوئے اور مالٹامیں اسیر کئے گئے، ۱۳۳۸ھ میں ہندوستان واپس ہوئے اور شیخ الہند کاخطاب دیاگیا، آخر عمر تک درس وتدریس ،تصنیف وتالیف کامشغلہ جاری رکھا، ۱۳۳۹ھ میں دہلی میں انتقال کیا اور دیوبند میں اپنے مربی استاذ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے پہلو میں سپردخاک ہوئے، آپ کے شاگرد کابل، قندھار، بخارا، چین، تبت اور عرب کے ملکوں میںپھیلے ہوئے ہیں۔ مدتوں کے بعد جب سے آپ نے درس وتدریس کا مشغلہ اختیار کیااور ہندوستان کے دور دراز مقامات پر تعلیم دی، یہ پہلا موقع تھا کہ آپ کو اپنے گھر کاماحول ملا، حضرت گنگوہی کی قربت اپنے خاص مادر علمی میں ملازمت اور محبت کرنے والے اور ہم خیال ساتھیوں کی صحبت نے ساری پریشانیوں اور دوری ومہجودی کو فراموش کردیا، آپ کو یہاں آکر جو اطمینان وسکون حاصل ہوا اور ذہن ودماغ اور دل کو جوراحت ملی وہ اب تک کہیں بھی نہیں ملی تھی اور اسی کی آپ کو ہمیشہ خواہش رہی اور اسی کے حصول کے لئے آپ نے دعائیں کیں اور کوشاں رہے۔ عموما آپ کا معمول یہ رہتا دوپہر کے وقت مقررہ سے پہلے مدرسہ تشریف لاتے اور نودرہ میں طلباء کے ساتھ نماز باجماعت پڑھ کر سبق شروع فرمادیتے۔ مدرسہ میں آنے اور تعلیم دینے میں ناغہ کرنا آپ جانتے ہی نہ تھے، نہ خود کرتے اور نہ کسی کا کرنا پسند کرتے، اس میں کبھی بڑے سے بڑا عذر مانع نہ ہوتا اس طرح آپ نے دارالعلوم دیوبند کی مدرسی کا پورا دور گزارا۔شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی حلقہ درس میں : حضرت مولانا کو دارالعلوم دیوبند آئے ہوئے ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی بارہ سال کی عمر میں بغرض تعلیم دارالعلوم آئے اور گلستان ومیزان سے اپنی تعلیم شروع کی ، ان کے بھائیوں نے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب سے عرض کیا کہ تبرکا تعلیم شروع فرمادیں مگر انہوں نے حضرت مولانا سے فرمایا کہ وہ شروع کرائیں اور پھر آپ نے شروع کرایا، مولانا سید حسین احمد مدنی فرماتے ہیں: ’’اوائل صفر ۱۳۰۹ھ میں، میں دیوبند پہنچ گیا اور ہر دو بھائیوں کے زیر سایہ انہیں کے کمرہ میں حضرت شیخ الہند قدس اللہ سرہ العزیز