حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شاگرد ہونے کا فخرحاصل کیا۔ مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی آپ کے درس اور آپ سے علماء مدینہ کے استفادہ کاحال ان الفاظ میں تحریر کرتے ہیں: ’’۱۳۲۴ھ کی ابتداء میںحضرت مولانا خلیل احمد صاحب قدس اللہ سرہ العزیز بعد از فراغت حج مدینہ منورہ تشریف لائے اور تقریبا پندرہ روز قیام فرمایا، چونکہ موصوف میرے اساتذہ کرام میں سے تھے، اس لئے طلباء مدینہ کا ان کی طرف بہت ہجوم ہوا، اور عموما علماء مدینہ بھی ان کی زیارت اور دست بوسی کے لئے حاضر ہوتے رہے اور بہت بڑے مجمع نے اوائل کتب احادیث سناکر مسجد شریف کے اندر بڑے حلقہ میں اجازت کتب حدیث علوم لی۔‘‘ (نقش حیات:۱۰۰)ایک شر انگیز فتنہ : حضرت مولانا کی مدینہ منورہ سے واپسی پر مدینہ منورہ کا وہ طبقہ جو علماء دیوبند کا مخالف تھا اور پہلے سے مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی اور ان کے خاندان کے علم وفضل وجاہت ونجابت اور محبوبیت ومقبولیت سے چڑھا ہوا تھا اور حسد کی آگ جس کے دلوں میں بھڑک رہی تھی، مگر ان کے خلاف کچھ نہ کرسکتا تھا، اس موقع کو غنیمت جان کر حضرت مولانا کے خلاف صف آرا ہوگیا اور اس نے آپ کی ’’براہین قاطعہ‘‘ کو سامنے رکھ کر آپ پر طرح طرح کے الزامات لگائے، مزید براں اسی زمانہ میںمولانا احمد رضاں خان صاحب بریلوی مدینہ منورہ پہنچے اور اپنی تازہ کتاب’’حسام الحرمین‘‘ جس میں علمائے دیوبند کے خلاف سخت خیالات کااظہار کیا گیا تھا او ران کی تکفیر کی گئی تھی ، علمائے مدینہ کے سامنے پیش کی اور ایک فتنہ برپا کردیا، اس سلسلہ میں مولانا سیدحسین احمد صاحب مد نی ؒ تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ امر ان متعدد ہندوستانیوں کو نہایت شاق گزرا جو خود یا ان کے اکابر حضرات علمائے دیوبند اور ان کے اسلاف رحمہم اللہ تعالیٰ سے کسی قسم کا خلاف رکھتے تھے… حضرت مولانا مرحوم کی یہ عظمت وشوکت دیکھ کر ان کے کلیجوںپر سانپ لوٹنے لگا۔ کتاب ’’براہین قاطعہ‘‘ حضرت مولانا مرحوم کی اہل بدعت کے لئے جس قدر سیف قاطع اور دلوںکو زخمی کرنے والی ہے، اس کو ان مخالفوں کا کلیجہ ہی جانتاہے چونکہ حضرت مولانا مرحوم قافلہ کی واپسی پر مجبور تھے اس لیے پندرہویں دن مع اپنے رفقاء کے واپس ہوگئے مگر مخالفوں کے سینوں پر زخم کرگئے۔‘‘ (نقش حیات ۱/ ۱۰۰) آگے تحریر فرماتے ہیں: ’’دو تین دن کے بعد مولوی احمد رضاخاں صاحب مدینہ منورہ پہنچے وہ مکہ معظمہ میں بعد از حج اپنے ایک رسالہ’’حسام الحرمین‘‘ پر دستخط کرانے کے لئے کچھ ٹھہر گئے تھے ان کی آمد پر یہ زخمی جماعت ان کے اردگرد جمع ہوگئی۔‘‘ (نقش حیات۱/۱۰۱) مولانااحمد رضاخاں صاحب نے مدینہ منورہ پہنچ کر بڑے بڑے حکام اور علمائے سے ملاقاتیں کیں، اپنا تعارف کرایا اوران کی خدمتوں میں نذرانے پیش کئے اپنی علمیت سے مرعوب کرنا چاہا اور غلط فہمی پھیلائی۔کتب خانہ کی تعمیر :