حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور اودھ کے علاقے قابل ذکر ہیں۔ خواجہ جلال الدین جوشیخ الاسلام کے پرپوتے تھے ہندوستان تشریف لائے، ان کی اولاد میں مخدوم بدرالدین نے دہلی کو اپنا وطن بنایا اور قطب مینار کے قریب مدرسہ قائم کیا اور درس وتدریس کامشغلہ جاری کیا، ان کی اولاد سنبھل اور پانی پت منتقل ہوئی۔ (۱)اس وقت مذہبی حنبلی صحت عقائد اور سنت کے لئے ان دیار میں ایک شعار بن گیا تھا معتزلہ سے صف آرائی نے اس کو حمایت حق اور مقابلۂ باطل کی حیثیت سے نمایاں اور ممیز کردیاتھا۔علماء فرنگی محل : علماء فرنگی محل(لکھنؤ) بھی اس خانوادۂ ایوبی سے تعلق رکھتے ہیں اور شیخ الاسلام ابواسماعیل عبداللہ ہروی کے اخلاف میںسے ہیں، ان کے مورث اعلیٰ جو سب سے پہلے سیہانی ضلع بارہ بنکی(یورپی) میں منتقل ہوئے وہ ملا نظام الدین ابن علاء الدین ہیں، انہی کی اولاد میں ملا قطب الدین شہید سیہالوی گزرے ہیں، ملا قطب الدین سہالی میں پیدا ہوئے اور زندگی بھر درس وتدریس کا مشغلہ جاری رکھا اور ۱۱۰۵ھ میں شہید ہوئے، ان کی شہادت کے بعد ان کے فرزند رشید ملانظام الدین چودہ پندرہ سال کی عمر میں اپنے گھر کے لٹے پٹے قافلے کو لے کر لکھنؤ پہنچے اور فرنگی محل میں قیام کیا، یہ ملا نظام الدین وہ ہیں جن کو علمی دنیا بانیٔ درس نظامی استاذالہند ملا نظام الدین محمدفرنگی محلی کے نام کے ساتھ عقیدت واحترام سے یاد کرتی ہے۔ ملانظام الدین کے اخلاف میںمسلسل ایسے اہل علم اور اصحاب قلم حضرات گزرے ہیں جن سے ہندوستان کیا عرب ممالک کے اصحاب فضل وکمال نے بھی استفادہ کیا اور آج بھی ان حضرات کی تصنیفات سے اہل علم مستغنی نہیں ہیں۔ ملا نظام الدین کے بلند پایہ صاحبزادے اورخلف الرشید ملک العلماء مولانا عبدالعلی بحرالعلوم کانام لینا ہی کافی ہے، آخر میں اس خاندان کے چشم وچراغ فخر المتاخرین مولانا عبدالحی فرنگی محلی ۱۳۰۴ھ تھے ان کی تصنیفات کی تعداد ایک سودس ہے جن میں چھیاسی کتابیں عربی میں ہیں، ان میں السعایہ فی شرح الوقایہ، مصباح الدجیٰ ، التعلیق الممحد، ظفرالامانی ، الفوائد البہیہ، جو علماء احناف کے حالات کا بہترین ماخذ ہے اہم تصنیفات ہیں، مولانا عبدالحی فرنگی محلی کے علاوہ مولانا عبدالحق ، مولانا انوارالحق، مولانا عبدالوالی، مولانا عبدالرزاق ،مولانااظہارالحق ، ملاحسن ،ملامبین، مفتی ظہور اللہ،مفتی محمد یوسف،مولانا ولی اللہ، مولانا جمال الدین ، جنہوں نے مدراس میں درس وتدریس کافریضہ انجام دیا، ان کے علاوہ مولانا محمد نعیم اور آخر میں مولانا عبدالباری نے جو مولانا عبدالوہاب بن مولانا عبدالرزاق کے صاحبزادے تھے، زندگی بھر درس وتدریس کامشغلہ رکھا، مدرسہ نظامیہ فرنگی محل کی بنیاد رکھی، علمی ،سیاسی اور دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، خلافت