حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے مکان کے قریب رہنے لگا، یہ کمرہ حضرت ؒ کی مسجد کے سامنے کوٹھی میں واقع تھا، یہاں پہنچنے کے بعد گلستان اورمیزان شروع کی، بڑے بھائی صاحب مرحوم نے حضرت شیخ الہند ؒ سے درخواست کی کہ آپ تبرکا اس کو دونوں کتابیں شروع کرادیں، مجمع میں حضرت مولانا خلیل احمد صاحب مرحوم اور دوسرے اکابر علماء موجود تھے حضرت ؒ نے مولانا خلیل احمد صاحب سے فرمایا کہ آپ شروع کرادیں، چنانچہ انہوں نے ہر دوکتابوں کو شروع کرادیا۔‘‘ (نقش حیات اول ۴۴) اس کے بعد حضرت مولانا ۱۳۱۴ھ تک دیوبند میں رہے اور اس درمیان آپ نے حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی صاحب کو ’’تلخیص المفتاح‘‘ پڑھائی، اسی بناء پر حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی آپ کا ہمیشہ احترام کرتے اور آپ کی عقیدت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ایک شورش اور حضرت گنگوہی کامکتوب : آپ جس زمانے میں دیوبند تشریف لے گئے وہ زمانہ حاجی عابد حسین صاحب دیوبندی کے اہتمام کا تھا جو اس مدرسہ کے بانیوں میں تھے، چند سال کے بعد ممبران کمیٹی کے اضافے میں اختلاف پیدا ہوا اور اس اختلاف نے فتنہ اور شورش پیدا کردی اور اس شورش سے بعض اہل شہر نے مخالفت اور فتنہ انگیزی میں حصہ لینا شروع کردیا اور یہ فتنہ اتنا بڑھا کہ مدرسہ کا وجود خطرہ میں پڑگیا ، اس فتنہ اور شورش سے مدرسہ کے مخلصین پر بہت اثر پڑا، خصوصا حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن جومدرسہ کے مدرس اول تھے، اور حضرت مولانا جو مدرس دوم تھے، بہت زیادہ متفکر اور پریشان ہوگئے ، ان کی کوشش تھی کہ وہ مدرسہ جو اخلاص سے قائم ہوا تھا وہ مخلصین کے بجائے غیر مخلصین حضرات کے ہاتھوں میں نہ جائے اور جو موجودہ شکل بن رہی ہے یہ مدرسہ کے حق میں تباہ کن ہے، اس لئے ان دونوں نے اس بات کی کوشش کی کہ فتنہ پرور اشخاص کی سازشوں کے جال میں یہ مدرسہ نہ پڑے اس لئے مجبور ہوکر ان دونوں نے اپنے شیخ ومربی حضرت گنگوہی کو مدرسہ کے حالات من وعن تحریر کئے اس کاجو جواب حضرت گنگوہی نے عنایت فرمایا وہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس مکتوب مبارک کو مکمل قارئین کے پیش نظر کیاجائے: ’’از بندہ رشید احمد عفی عنہ برادران مکرمان بندہ مولوی محمود حسن صاحب ومولوی خلیل احمد صاحب مدفیوضہما۔ بعدسلام مسنون مطالعہ فرمایند آپ دونوں کے چند خطوط پہنچے جس سے وہاں کا حال معلوم ہوتارہا، آج مولوی خلیل احمد صاحب کا خط آیا جس سے پریشانی مدرسین کی دریافت ہوئی لہٰذا یہ تحریر ضرور ہوئی۔ میرے پیارے دوستو! تم کوکیوں اضطراب وپریشانی ہے تم تو ومن یتوکل علی اللہ فھوحسبہ پر قانع رہو، مدرسہ سے فقط آپ کو اتنا تعلق ہے کہ درس دئیے جاؤ، اگر مدرسہ بندحق تعالیٰ کروادے گا تم اپنے گھر بیٹھ رہنا اگر مفتوح رہا درس میں مشغول رہنا جو تم سے درس کرانا اہل شہر کو منظور نہ ہوگا تو دوسرا باب مفتوح ہوجائے گا۔ تم کس واسطے پریشان ہوتے ہو خبر بھی مت ہو کہ کیا ہورہاہے اپنا کام کئے جاؤ