حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مولانا محمد یحیٰ صاحب کا ہیضہ میں انتقال ہوگیا اور حضرت مولانا سے ملتے ملتے اپنے رب سے جاملے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اہل مدرسہ حضرت مولانا کی آمد کا استقبال کررہے تھے کہ ناگاہ اتنے بڑے حادثہ سے دوچار ہوگئے خوشی ومسرت رنج وغم میں تبدیل ہوگئی اس حادثہ کی اطلاع بجلی کی طرح شہرودیہات میں پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سوگواروں کا ایک مجمع اکٹھا ہوگیا جب حضرت مولانا بمبئی اترے تو وہیں مولانا محمد یحیٰ صاحب کے انتقال کی خبر ملی… اس حادثہ کا جو اثر حضرت مولانا پرپڑا اس کی تصویر کشی حضرت شیخ مدظلہٗ کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے: ’’حضرت سہارنپوری قدس سرہٗ ایک سالہ قیام کے بعد جو حضرت شیخ الہند کے ساتھ ۳۳ھ میں روانگی ہوئی تھی جس دن بمبئی پہنچے اسی دن میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا، والدصاحب کے انتقال کا تار حضرت کو بمبئی میں پہنچا اور حضرت اس کو سن کر سکتے میں رہ گئے لیکن اس سے تین چار دن پہلے حضرت کا عدن سے تار آیا کہ فلاں جہاز سے تشریف لارہے ہیں اس تار پر جتنی مسرت سہارنپور والوں کواور حضرت قدس سرہ سے تعلق رکھنے والوں کو ہونی چاہئے تھی ظاہر ہے میں نے اس تار کی اطلاع پر اعلیٰ حضرت رائپوری قدس سرہ اور نظام الدین کاندھلہ گنگوہ سب جگر مژدہ کے خطوط لکھ دئیے دوسرے دن والدصاحب ؒ نے مجھ سے ہی اعلیٰ حضرت کو رائے پور خط لکھوانا شروع کیا جس کی ابتداء یہ تھی: مژدہ اے دل کہ دگر باد صبا باز آمد ہد ہد خوش خبراز شہر صبا باز آمد (آپ بیتی :۵/۱۵۱)گرفتاری اور نینی تال روانگی : بمبئی میں سی آئی ڈی کو یہ غلط اطلاع ملی تھی کہ اس جہاز میں حضرت شیخ الہند تشریف لارہے ہیں ، اس لئے اہل تعلق کے ساتھ انگریزی سی آئی۔ ڈی اور ایک بہت بڑا مجمع بندرگاہ پر جمع ہوگیا جس میں حضرت مولانا کے اہل تعلق بھی تھے ، جہاز کے لنگر انداز ہوتے ہی سی آئی۔ڈی شیخ الہند کو ڈھونڈھنے بڑھی جب اس کو معلوم ہوا کہ شیخ الہند نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھی ہیں تو پولیس نے حضرت مولانا کو اور شیخ الہند کے ساتھی مولانا ہادی حسن کو حراست میں لے لیا اور سخت ترین تلاشی لی حتی کہ ہاتھ کی چھڑی بھی توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردی مگر کوئی مشتبہ چیز نہیں نکلی ،پھر ان سب کو پولیس کی حراست میں نیتی تال پہنچادیا۔(ماخوذ از نقش حیات جلددوم) گرفتاری کا حال اور نیتی تال بھیجے جانے کی اطلاع جب اہل تعلق کو معلوم ہوئی تو سب بے چین ہوگئے اور زیارت کی تنما تڑپانے لگی، مولانا عاشق الٰہی صاحب لکھتے ہیں: ’’دفعۃً یہ خبر سنکر کہ آپ کو گرفتار کرکے نیتی تال بھیجدیاگیا خدام میں کہرام مچ گیا اور بعض باوجاہت ذی مقدرت متوسلین نے وہاں پہنچنا چاہا مگر آپ نے بذریعہ تحریر سب کو تسلی دے کر ممانعت لکھی کہ یہاں آنے کا کوئی صاحب قصد نہ کریں مقدر پر شاکر رہیں۔‘‘