حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان کی ذات خیروبرکت کا باعث تھی وہ حضرت کے سایہ عاطفت سے محرومی کا تصور بھی نہیں کرتے تھے لیکن جو ممبران مخالف گروپ سے تعلق رکھتے تھے وہ اہل ثروت ووجاہت اور حکام رس تھے انہوں نے بلا کسی پس وپیش کے استعفیٰ منظور کرلیا اور بدقسمتی سے یہ مدرسہ حضرت گنگوہی جیسے عالی مرتبت شیخ اور مخدوم العلماء کی سرپرستی سے محروم ہوگیا۔حضرت مولانا کی صدر مدرسی سے جبرا سبکدوشی : حضرت گنگوہی کے استعفیٰ کے بعد مسئلے نے اور نزاکت اختیار کرلی، اہل تعلق ممبران کمیٹی رنج وغم میں ڈوب گئے اور مخالف عنصر اپنے ارادوں میں آزاد ہوگیا، اس کی ہمتیں بلند اور ارادے اورمضبوط ہوگئے اس کو شہ مل گئی اور اہل تعلق ممبران کمیٹی سے صرف نظر کرکے پانچ رکنی کمیٹی کی تشکیل کی جس میں سارے ممبران باغی عنصر کے رکھے اس نو ساختہ کمیٹی نے حضرت مولانا کو صدر مدرسی سے برخاست کردیا یہ افسوسناک اقدام ۲۵ شوال ۱۳۲۰ھ مطابق ۳ جنوری ۱۹۰۳ء کوکیاگیا، کمیٹی کے مخلص سابق ممبران اس اقدام سے اتنے غمزدہ اور برداشتہ خاطر ہوئے کہ جیسے ان کی عزیز متاع گم ہوگئی ہو اور وہ بے بال وبر کے رہ گئے ہوں، ان میں سے ایک ممبر مولوی حبیب احمد جو حافظ فضل حق م۱۳۰۲ھ کے صاحبزادے تھے اتنے غمگین ہوئے کہ حضرت مولانا سے بے ساختہ لپٹ کر رونے لگے اور نہ صرف یہ کہ خاموش بیٹھ گئے ہوں بلکہ پوری قوت وطاقت سے آپ کو روکنے اور آپ کے لئے سینہ سپر ہونے کاکام کیا مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ اس واقعہ کے بعد حضرت مولانا نے پورے استغناء کا ثبوت دیا اور سہارنپور چھوڑ کر اپنے وطن انبہٹہ میں مستقل قیام کا ارادہ کرلیا اور متعلقین کو بھیجد یا حضرت شیخ الحدیث اس کیفیت اور اس صورت حال کو اس طرح تحریر فرماتے ہیں: ’’بعض اراکین مدرسہ کی خود غرضی اور مدرسہ کے معاملات میں بے توجہی نے مدرسہ کے نظم ونسق میں بہت سی رکاوٹیں اور پیچیدگیاں پیدا کردیں اور ان چند گنے چنے ممبران نے ذاتی مفاد کو مدرسہ کے مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب مدرس اول کو بلا کسی وجہ کے اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اپنا قدیمی تعلق مدرسہ سے بالکل منقطع کرلیں اور جو تعلیمی خدمات حضرت اقدس گنگوہی نے ان سے منسوب فرمائی ہیں ان سے بالکلیہ سبکدوش ہوجائیں لیکن ان تمام مخالفتوں کے باوجود حضرت نے اپنے طور پر اپنے لئے کوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ اپنے شیخ کے حکم کاانتظار فرمایا چنانچہ وہاں سے اجازت آگئی کہ سب چھوڑ کر چلے آؤ پھر اسی اثناء میں دوسرا حکم آ پہنچا کہ وہیں قیام کرو، حضرت نے اس حکم ثانی کو بخوشی منظور فرمالیا اگرچہ یہاں قیام میں اپنی عزت وآبرو کا خطرہ تھا مگر حکم شیخ کے سامنے ان چیزوں کو کوئی اہمیت نہ دی، ادھر ان چند اراکین نے جو مخالفت میں پیش پیش تھے ایک ناتمام کمیٹی منعقد کرکے حضرت کو مدرسہ سے علیحدہ کرلیا۔‘‘ (تاریخ مظاہر اول ۸۵۔۸۶) حضرت گنگوہی کے استعفیٰ اور حضرت مولانا کی سبکدوشی سے مدرسہ کے مخلصین، معاونین، اہل تعلق عوام وخواص پر اتنا اثر پڑا کہ ہر شخص اپنی جگہ پر بے چین ہوگیا اور اس کو صرف مدرسہ کاحادثہ نہیں سمجھا بلکہ ہر ایک نے اپنا ذاتی حادثہ سمجھا، حضرت گنگوہی کا یہ حکم تھا بدلتے ہوئے حالات کی اطلاع برابر ان کو دی جاتی رہے حضرت پوری طرح ادھر متوجہ رہے اور دعا کے ساتھ ساتھ