حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کاجذبہ کارفرماتھا اس لئے یہ جلسہ بڑا ہی کامیاب اور مدرسہ کے حق میںبہت ہی مفید ثابت ہوا، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے بڑی موثر دلنشین اور مدلل تقریر فرمائی، حضرت مولانا کا جوش بیان، سامعین کاجذب وشوق، حاضرین کی کیف وسرمستی ، اہل تعلق کی وارفتگی وشیفتگی دیکھنے کے قابل تھی ۔ مہتمم صاحب مدرسہ مولانا عنایت الٰہی صاحب اپنے تأثرات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں: ’’ایک بحرذخار تھا کہ موجیں ماررہاتھا اور محویت تھی کہ ہر صورت پر طاری تھی، ایک کیفیت تھی کہ ہر شخص پر حاوی تھی اور ایک لطف تھا کہ ہر قلب کو حاصل ہورہاتھا ، چاروں طرف سکوت ہر جانب خاموشی ، ہرشخص خواہشمند تھا کہ تقریر دن بھر ختم نہ ہو اور ہر آنکھ چاہتی تھی کہ عالم ربانی کا نورانی چہرہ رات تک نظر سے اوجھل نہ ہو، مگر وقت قابو کی چیز نہ تھی، دن اختیار میں نہ تھا کہ روک لیا جاتا، سامعین کھڑے اور بیٹھے فرط شوق میں بصورت تصویر بنے ہوئے تھے، دھوپ کی خبر نہ تپش کا خیال، نہ بھوک کی خواہش ، نہ تین گھنٹے کھڑے رہنے کا تکان یہاں تک کہ جب بارہ بجے مولانا ممدوح نے وعظ ختم فرمایا اس وقت کے قلق کا اندازہ نہیں کیاجاسکتا، شرکاء جلسہ کی کثرت اور فراخ حوصلہ نیک نیت اہل اسلام کی اس قدر کثیر مالی اعانت آج سے پہلے مدرسہ کو نصیب نہیں ہوئی تھی اوردرحقیقت یہ پہلا اتفاق تھا اور گویا پہلا جلسہ تھا جو ایسے مقدس علماء کی سرپرستی میں ہوا، جن کے تقویٰ، تورع، للہیت ، علمی فضل اور دینی کمال کا قائل ایک زمانہ ہے۔‘‘ (تاریخ مظاہر اول: ۹۸)مولانا ذوالفقار علی صاحب دیوبندی کاانتقال اور شیخ الہند کا انتخاب : ۱۳۱۹ھ اور ۱۳۲۰ھ کے مختلف النوع ہنگاموں اور شورشوں کے ختم ہوجانے کے بعد جدید اہل علم سرپرستوں کی سرپرستی میں اور حضرت مولانا کے خلوص ، للہیت اور محنت کی وجہ سے مدرسہ کو دن دونی اور رات چوگنی ترقی ہونی شروع ہوئی، جس کے متعلق مولانا عاشق الٰہی میرٹھی لکھتے ہیں: ’’سرپرستان مدرسہ جیسے دیانت دار اور دینی مدرسہ کی بقا وترقی کے شیدا تھے، ایسے ہی حضرت(مولاناخلیل احمد صاحب سہارنپوری) اپنے استاذ(مولانا سعادت علی صاحب سہارنپوری) کے لگائے ہوئے نخلستان کی ہر روش اور کیاری پر جاں نثار تھے اس لئے نظام میں دخل دینے اور ہر شعبہ کی ضروریات پر سرپرستوں کو توجہ دلانے کاموقع ملا اور وہ مدسہ زاویہ خمول کسمپرسی میں پڑا ہوا تھا گھٹنوں چلنے اور پھر لپکنے اور تیز رفتار دوڑنے لگا، طلباء کی کثرت ہوئی مدرسین کا اضافہ ہوا، چندے میں توسیع ہوئی، نایاب کتابوں کی بذریعہ وقف وخرید بیشی ہوئی اور عالیشان ومحفوظ کتب خانہ جدید بناگیایا خالی چھتوں پر درسگاہیں تعمیر ہوئیں، ماہر تجوید فارسی کا تقرر ہوا، مفتی رکھے گئے اور فتاویٰ نویسی کا مستقل انتظام ہوا کہ وقت پر جوابات جائیں اور سب رجسٹر میں بلفظہا درج ہوں۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۲۰۷) لیکن ان ترقیات کی تکمیل سے پہلے ہی ان سرپرستوں میں سے ایک سرپرست مولانا ذوالفقار علی صاحب دیوبندی ۱۳۲۲ھ کو انتقال کرگئے، آپ کے انتقال سے جہاں مدرسہ کو نقصان پہنچا وہاں حضرت مولانا کو بیحد قلق اور افسوس ہو اکہ ان کے نیک مشوروں سے آپ مستفید ہوتے رہتے تھے اور مدرسہ کی ترقی ہورہی تھی، ان کی ذات گرامی آپ کے لئے ایک بڑا سہارا اور ان کی