حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پہلاحج : بھوپال ہی کے اثنائے قیام میں آپ کو یہ خبر ملی کہ آپ کے وطن کے کچھ اعزاء واہل تعلق حج کوجارہے ہیں،توآپ کے دل میں حج کاداعیہ پیدا ہوا اور عشق مدینہ کی سوئی ہوئی چنگاریاں آتش شوق میں بدل گئیں، اگرچہ آپ حج کی استطاعت نہیں رکھتے تھے مگر انتہائی شوق میں آپ نے تیاری شروع کردی اور مولانا جمال الدین مدارالمہام کے خدمت میں حسب ذیل درخواست گزاردی۔ ’’دارالاقبال ریاست بھوپال کاطریق عمل یہ ہے کہ جو ملازم حج کوجائے اس کو رخصت بلا وضع اور ان چند ماہ سفر کی تنخواہ پیشگی دے دیجاتی ہے لہٰذا آپ بھی عنایت فرماویں تاکہ میں حج کرآؤں۔‘‘ حضرت مولانا بھوپال میں سرکاری ملازم نہ تھے بلکہ غیر سرکاری مدرسہ میں صدر مدرس تھے، اس لئے ذمہ داران مدرسہ نے اس درخواست پر پورا مطالبہ تو نہیں پورا کیا صرف اتنا کہا کہ کچھ تنخواہ پیشگی دے کر رخصت منظور کرلی، اس پیشگی تنخواہ سے حج کاخرچ پورا نہیں ہوتاتھا مگر شوق حج میں آپ ناکافی رقم لے کر وطن پہنچے تو وطن والے حج کے لئے روانہ ہوچکے تھے والدین اور اپنے مرشد حضرت گنگوہی سے اجازت لیکر آپ تن تنہا بمبئی روانہ ہوگئے، بمبئی پہنچ کر معلوم ہوا کہ جن کی ہمراہی کے بھروسہ پر تن تنہا بمبیئی آئے کہ یہاں سے ان کا ساتھ ہوجائے گا وہ بھی نہ ہوا اور ساتھی پہلے جہاز سے حجاز روانہ ہوگئے مگر آپ کے شوق میں کمی نہ آئی، نہ پائے ثبات میں لغزش اور عزم وارادہ میں کمزوری پیدا ہوئی اور اگلے جہاز پر آپ سوار ہوگئے۔ایک غیبی مدد : جہاز پر آپ نے کس طرح سفر کیا اور آپ کے ساتھ اللہ کی کیسی مدد ہوئی، وہ خود آپ کے الفاظ میں پڑھئے۔ ’’جہاز بندر سے چلا تو مجھے دوران سر شروع ہوا اور پورے تین دن چکر اور قے میں گزرگئے کہ کھانے کی خواہش نہ ہوئی مگر چوتھے دن جب ذرا طبیعت کو سکون ہوا تو بھوک معلوم ہوئی اور میںنے ایک دیگچی میں مونگ کی کھچڑی نکال کر پکنے کے لئے چولہے پر رکھی ، پکانے کاکبھی اتفاق نہ ہوا تھا، دیکھا تو پانی اوپر آگیا اور دال گل گئی مگر چاول جوں کے توں،نمک اس قدر تیز کہ منہ تک نہ لے جائی جاسکے ،خاموش ہوکر اپنی جگہ آبیٹھا اور دیگچی کو ایک طرف رکھ دیا۔ بھوپال کے قریب کے ایک نواب صاحب بھی اسی جہاز میں حج کو جارہے تھے میری عمر کا اس وقت چوبیسواں سال اور شباب کازمانہ تھا، اتفاق سے ان کا اس طرف گزر ہوا اور مجھ پر نظرپڑی تو پوچھنے لگے صاحبزادے تمہارے ساتھ کون ہے؟ میں نے برجستہ جواب دیا کہ، ’’اللہ‘‘ یہ سن کر وہ خاموش چلے گئے اور اپنی جگہ پہنچ کر مجھے بلایا،میںگیا تو انہوں نے میری دعوت کی اور فرمایا کہ صاحبزادے تم کھانا ہمارے ہی ساتھ کھایا کرو ، میں نے کہا کہ یوں توکھاتے ہوئے شرم آتی ہے، ہاں کوئی خدمت مجھ سے لے لیجئے تو انکار نہیں، وہ ذرا سوچے اور پھر مجھ سے پوچھا کہ تم کو لکھنا آتاہے؟ میں نے کہا جی ہاں آتاہے، اور لکھ کر ان کے سامنے پیش کیا میرا خط دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور کسی کتاب کا مسودہ ان کے ساتھ تھا، اس کو خوشخط نقل کرنے کے لئے میرے حوالے کردیا، میں نے روزانہ کی کارگزاری صفحات کی تعداد میں مقرر کرلی اور کھانا ان کے ساتھ کھانے لگا اور