حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جان دی ہوئی اس کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا حضرت مولاناکایہ معمول ہوگیا تھا کہ صبح کو کھانے سے پہلے ۳،۴ پارے خود تلاوت فرماتے طعام کے بعد دو پارے اپنی اہلیہ محترمہ کو سناتے بعض آیات پر ایسا گریہ طاری ہوتا کہ بے ساختہ رونے لگتے تھے اور دیر تک اس کا اثرباقی رہتا تھا ان آیات کا ترجمہ گھر والوں کو سناتے تھے۔اہلیہ صاحبہ کے ساتھ حسن معاملہ اور صبر کی تلقین : عمر کے پورے ہونے کے جتنے دن گزرتے آپ کا سوزوگداز بڑھتا رہا ۔اہلیہ محترمہ سے معاملہ بہتر سے بہتر ہونے لگا جب بھی اپنی موت کا استحضار ہوتا اور اہلیہ محترمہ کی بیوگی کا خیال آتا تو دل پر ایک خاص اثر پڑتا اس لئے آپ ان کے ساتھ دل دہی زیادہ سے زیادہ کرنے لگے اور موقع موقع پر انکے سامنے ایسا تذکرہ کرتے اور صبر و عزیمت کی تلقین کرتے کہ ان کا دل برداشتہ نہ ہو اور انکو اس کٹھن منزل کیلئے تیار کررکھیں ایک مرتبہ فرمانے لگے: ’’مدینہ منورہ میں رہ کریہاں کے مصائب و تکالیف پر اگر کوئی صبر کرے تو جناب رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے میں خاص طور پر اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘ اہلیہ محترمہ نے عرض کیا کہ مجھے تو کوئی تکلیف یا مصیبت نہیں ہے میں بحمدﷲ بہت راحت سے ہوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا۔ ’’آخر کچھ تو ہے ہی یہی روٹی ٹکڑے کی۔‘‘ اس واقعہ کے بعد اور بھی ایسے مواقع آئے کہ حضرت مولانا گاہے گاہے اپنی صابرہ شاکرہ اہلیہ کوآنے والے کٹھن ایام میں صبر کی تلقین فرماتے رہتے تھے اسلئے کہ حضرت مولانا کو اب اپنی وفات اور بقیع میں آسودہ خاک ہوجانے کا پورا یقین ہوگیا تھا۔حج ۱۳۴۵ھ میں عدم شرکت : شوال سے ذی الحجہ ۴۵ھ تک طبیعت گو مضمحل رہی مگر کوئی ایسامرض لاحق نہیں ہوا جس کی وجہ سے مسجد نبوی میں آنے جانے سے معذور ہوگئے ہوں،فالج کا اثر بھی تقریباً ختم ہوگیا تھا مسجد نبوی میں نمازوں میں شرکت ،آستانہ نبوی پر حسب معمول دبے پاؤں اور باادب حاضری ہوتی ۲۵ذیقعدہ کوخدام اور رفقاء کا جو قافلہ رخصت ہوا تھا وہ مکہ مکرمہ میں جاکر مقیم ہوگیا اور حج کے ارکان ادا کئے،حضرت مولانا اب آخری عمرمیں مدینہ سے نکلنا پسند نہیں فرماتے تھے کہ کہیں اور داعی اجل کو لبیک نہ کہنا پڑے وہ ہر وقت اس تمنا اور آرزو بلکہ انتظار میں رہتے تھے کہ طائر روح قفس عنصری سے آزاد ہوکر آستانہ نبوی کے سایہ میں ہی بسیرا کرے۔ تمنا درختوں پر ترے روضہ جابیٹھے قفس جس وقت ٹوٹے طائر روح مقید کا