حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مکمل سپردگی : آپ کو بیعت کے بعد اپنے شیخ ومرشد سے اتنی محبت ہوگئی تھی کہ ساری محنتیں ماند پڑگئی تھیں، مرغوب سے مرغوب چیز کی محبت شیخ کی محبت کے آگے ہیچ تھی، آپ نے ہر ہر معاملے میں اپنے آپ کو اپنے شیخ ومرشد کے سپرد کردیاتھا، ہر بات میں حضرت کو اطلاع کرتے، حکم کے طلبگار ہوتے اور جو حکم ہوتا بے چون وچرا عمل کرتے چاہے وہ نفس کے خلاف ہو یا موافق، ان کی خلاف ورزی کاوسوسہ بھی دل میں نہ لاتے۔ سپردم تبومایۂ خویش را تو دانی حساب کم وبیش را جب تک حضرت گنگوہی بقیدحیات رہے آپ معمولی سے معمولی اوراہم سے اہم کام میں حضرت کے حکم وارشاد کے منتظر رہتے۔ اپنے شیخ ومرشد کے ہر حکم واشارے پر عمل کرنے اور ان سے ہر بات پوچھنے کی صفت اس لئے بیان کی گئی ہے کہ آیندہ صفحات میں جابجا ایسے واقعات آپ پڑھیں گے جن میں حضرت مولانا نے صرف اپنے شیخ ومرشد ہی سے واسطہ رکھا اور انہیں کے حکم واشارے پر اپنی زندگی کو بسرکیا۔اجازت وخلافت : بیعت کے تقریبا نوسال کے بعد جب آپ حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو آپ کے شیخ ومرشدحضرت گنگوہی نے اپنے شیخ حضرت حاجی امداداللہ صاحب نوراللہ مرقدہ کی خدمت میں حضرت مولانا کو اجازت وخلافت عطا کرنے کی گویا سفارش فرمائی، مولانا عاشق الٰہی صاحب لکھتے ہیں: ۱۲۶۷ھ میں جب آپ دوسرے حج کے لئے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے تو حضرت امام ربانی نے مرشدالعرب والعجم اعلیٰ حضرت حاجی امداداللہ شاہ صاحب کی خدمت میں لکھا کہ مولوی خلیل احمد حاضر خدمت ہوتے ہیں، حضرت ان کی حالت پر مطلع ہوکر مسرور ہوں گے، چنانچہ جب آپ حاضرخدمت ہوئے، تو اعلیٰ حضرت آپ کی باطنی کیفیت مشاہدہ فرماکر نہایت خوش ہوئے، اور جب آپ رخصت ہونے لگے تو چھاتی سے لگایا اور اپنی دستا رمبارک سر سے اتاکر آپ کے سر پر رکھ دی، امام ربانی کے نام مبارکباد کاخط اور حضرت کے نام خلافت نامہ مزین بہ مہر آپ کے حوالے فرماکر رخصت کیا، حضرت نے اس شاہی عطیہ کو ایک خاص احترام کے ساتھ قبول کیا اور دستار مبارک کواسی بندش پر جو اعلیٰ حضرت کی باندھی ہوئی تھی جگہ جگہ سوئی سے سی لیا کہ اس کے بل جدانہ ہونے پائیں اور جب ہندوستان پہنچ کر گنگوہ حاضر ہوئے، تو اعلیٰ حضرت کا والا نامہ پیش کرکے یہ دونوں عطیے بھی امام ربانی کے سامنے رکھ دئیے، حضرت نے فرمایا مبارک ہو، یہ تواعلیٰ حضرت کاعطیہ ہے، آپ نے عرض کیا کہ بندہ تو اس لائق نہیں یہ حضور کی بندہ نوازی ہے۔‘‘