حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت مولانا کی خدمات اور مدرسہ کی ترقی و عروج کا زمانہ : حضرت مولانا نے اس درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مدرسہ کی ہر طرح کی ترقی و عروج کی فکر کی اور آپ کے دور صدر مدرسی و نظامت اور سرپرستی میں مدرسہ کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوئی،مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی آپ کے فکر مدرسہ کی تعمیر و ترقی کے لئے آپ کی محنت و مشقت اور تعمیری صلاحتیوں کا ذکر اس طرح کرتے ہیں: ’’جب ترقیات کو ماشاء اﷲ اور ترقی ہوئی تو مدرسہ کا مکان ناکافی ہوگیا،کہ نہ مدرسین کے قیام کے لئے حجرات کافی اور نہ طلباء کی رہائش کیلئے جگہ دانی طلبہ شہر کی مسجدوں میں مقیم جن کے حالات علمیہ و عملیہ کی نگرانی محال اور مختلف محلوں میں ان کی روٹیاں مقرر کہ ہر معطی ان پر حکومت چلانے کو تیار اس رُلانے والی بوسیدہ حالت کو دیکھ کر حضرت نے محض توکلاً علی اﷲ ایک وسیع زمین خرید کر عالی شان تعمیر کی بنیاد ڈال دی کہ اوپر کے حصے میں جدا جدا درسگاہیں ہوں اور نیچے کے طبقے میں طلباء کی رہائش کے لئے کافی مقدار میں حجرے مہمانان رسول کے لئے مہمان خانہ بننے کے لئے خلیل اللہی کا آواز کا بلند ہونا تھا کہ پہلے ہی سال چار سو پچھتر روپیہ تین آنے کی رقم آئی اور دوسرے سال آٹھ ہزار چھ سو چونسٹھ روپے تین آنے ۱۳۲۷ھ میں اس یاد گار خلیل کا بنیادی پتھر حضرات سرپرستان کے ساتھ کثیر جماعت علماء و صلحاء کے مبارک ہاتھوں رکھا گیا ادھر تعمیر جاری ہوئی ادھر اہل خیر کی عطا وسخا دریا بہ پڑے کہ کام نے ایک دن رکنے کا نام نہ کیا حضرت مولوی تھے اور درسی کتابوں یا مدرسوں کی چٹائیوں کے سوا کسی چیز سے کبھی واسطہ ہی نہ پڑا تھا خدا جانے انجینئری اور سیاق فن تعمیر کہاں سیکھا تھا کہ محض اپنی تجویز سے نقشہ بنایا اور خود کھڑے ہو ہو کر مستری سے از اول تا آخر تعمیر کرائی آخر ۱۳۳۷ ھ میں دس سال کے اندر جب قصر معلّٰی مکمل ہوا تو دیکھنے والے ماہرین فن حیران ہوجاتے اور ستر پچھتر ہزار کی لاگت کا تخمینہ کیا کرتے تھے حالانکہ اس میں چالیس ہزار بھی پورا خرچ نہیں ہوا تھا۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۲۰۶،۲۰۷) حضرت مولانا کے زمانہ کی ترقی آپ کے حسن ذوق مدرسہ سے تعلق اور تعمیری صلاحیتوں کا تفصیل سے جائزہ لے کرمولانا میرٹھی اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ ’’حضرت دنیا سے تشریف لے گئے مگر حضرت کی یادگار جس کی تعمیر میں مدرسہ سے فارغ ہوکر دوپہر اور شام کا وقت حضرت مستری کے پاس کھڑے ہوکر گزارا کرتے اور دھوپ کی پروا کرتے نہ بارش کی ایک بڑا صدقہ جاریہ بن کر مدت دراز تک باقی رہے گا اور حضرت کی یاد اس طرح دلاتا رہے گا کہ زبانوں میں دعائیں ہوںگی دلوں میں تشکر ۔ظاہر ہے کہ دنیا میں جو بھی آیا ہے وہ مرنے کے لئے آیا ہے مگر اس موت پر ہزار زندگیاں قربان جس کے ہر لمحے میں ایصال ثواب کے لئے وہ بہترین دینی یادگاریں قائم ہوں جو عالم دنیا و آخرت دونوں میں ہر دیکھنے والوں کو دعا گو اور مسرور بنائیں اور سہا برس آب و تاب کے ساتھ سرو قد کھڑی ہوئی اپنے بانی کے نام کا بزمان حال ترانہ گائیں کہ ؎ ہمیں حقیر گدایان قوم را کایں قوم شہاں بے کمر خسرواں بے کلہ اند