حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جس کو سن کر سارے حکام اور وکیل وبیرمسٹر بھی دنگ ہوگئے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۱۱۸) اس تاریخی مناظرے کے بعد اہل بدعت نے اپنی شکست کا بدلہ اس طرح لیا کہ آپ کو ترک ملازمت اور بھاولپور چھوڑنے پر مجبور کیا۔مولانا کا استعفیٰ : جب اہل باطن کا شوروغوغا اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور آپ کوسکون وراحت کے ساتھ نہ رہنے دینے کا تہیہ کرلیا گیا تو آپ نے بھاولپور چھوڑنے کا ارادہ کرلیا اور آخر کار اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی اس صورت حال کا اس طرح تذکرہ کرتے ہیں: ’’یہ خفت وندامت آپ کے ساتھ مزید عداوت کاسبب بن گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیاگیا، آپ خود ہی بھاولپور سے بیزار تھے یہ توصرف احقاق حق کا قصہ تھا کہ خود مختار ریاست میں دشمنوں کی قوت کا اندیشہ کئے بغیر مناظرے کے لئے چلے آئے تھے، لہٰذا آپ نے استعفیٰ دے دیا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۱۳۸)مخالفین کا جذبۂ انتقام ،گرفتاری کاحکم اور آپ کی وطن واپسی : آپ کے استعفیٰ دیتے ہی مخالفین کے دلوں میں آپ کے خلاف جذبۂ انتقام پیدا ہوگیا اور بعض حکام سے مل کر آپ کوجسمانی اذیت پہنچانے کے درپے ہوگئے، چنانچہ تھانیدار کو حکم آیا کہ آپ کو گرفتارکرلیاجائے مگر خدا کی شان جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے؟ آپ کی حفاظت کا غیب سے انتظام ہوا، خود تھانیدار نے اس وقت جب کہ آپ مغرب کی نماز ادا فرمارہے تھے آپ کو اس حکم کی اطلاع کردی، دوسری طرف آپ کے ایک تعلق رکھنے والے مولوی احمد احمد پوری تاجر کتب نے اس خفیہ کاروائی کی اطلاع حسب ذیل آیت لکھ کر کردی ’’إن الملأ یأتمرون بک لیقتلوک فاخرج إني لک من الناصحین‘‘ اس اطلاع کے بعد آپ نے بھاولپور سے نکل جانے کو مناسب سمجھا اور شب ہی میں بھاولپور سے روانہ ہوگئے ، جو دوست واحباب آپ کو اسٹیشن پہنچانے آئے تھے، ان پرحکام کاعتاب نازل ہوا مگر انہوں نے اس کی بالکل پرواہ نہ کی اور ایک عرصہ تک بھاولپور میں ملازم رہے۔بریلی : بریلی روہیلکھنڈ کاایک مرکز اور دینی وتہذیبی علاقہ رہاہے، روہیلوں کے عہد بالخصوص حافظ الملک الحافظ رحمت خاں مرحوم کے زمانہ سے یہ علاقہ علماء وصلحاء کی سکونت اور قیام سے معمور اور آباد ہوا، چھوٹے چھوٹے گاؤں اور قصبے علم کا