حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عصر تک حضرت مولانا کو ہوش رہا مگر ضعف و نقاہت کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے لیکن عصر کے بعد ہوش میں بھی فرق آنا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ بالکل غفلت طاری ہوگئی اب گویا تیزی کے ساتھ منزلِ آخرت کی طرف سفر فرمانے لگے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہ عصر کے بعد کا حال اس طرح تحریر فرماتے ہیں: ’’عصر کے وقت ہوش و حواس میں اختلال شروع ہوگیا اور امام کی آواز پر خود رکوع نہیں کیا بلکہ جب حاجی مقبول صاحب نے رکوع کا لفظ کہہ کر اشارہ کیا تو رکوع کیا اور جب سجدہ کو کہا تو سجدہ کرلیا اس طرح چار رکعت بہ مشکل پوری کراکے آپ کو لٹا دیا گیا اور اس کے بعد سکوت بڑھتا گیا کہ اس سے پہلے بات کا سمجھنا اور جواب دینا یا از خود کوئی نئی بات فرمانا برابر جاری تھا مغرب کے وقت مولانا سید احمد صاحب نماز پڑھانے کیلئے آئے تو بالکل غفلت تھی کہ نماز کے واسطے پکار کر اطلاع کی مگر کچھ جواب نہ ملا،نہ اٹھنے کی طاقت محسوس ہوئی ،خدام نے اپنی نماز علیحدہ پڑھ لی مگر انتظار رہا کہ کچھ التفات یا افاقہ ہو تو نماز کے لئے عرض کیا جائے گا لیکن بالکل دنیا سے قطع تعلق ہوچکا تھا،اور سوائے پاس انفاس کے نہ کوئی حرکت تھی اور نہ کسی بات کا جواب ، نہ سوال۔‘‘انتقال : رات آئی تو سارے اہل تعلق کے لئے فکر و تشویش کولائی بیہوشی مسلسل چل رہی تھی لوگوں کو یقین سا ہو چلا تھا کہ حضرت مولانا ہم سے جدا ہونے والے ہیں اور جن کے خیرو برکت کے سایہ میں زندگی گزرہی تھی اس سے بہت جلد محروم ہونے والے ہیں ہر ایک بارگاہ رب العزت میں دعاگو تھا کہ مبارک سایہ تادیر قائم رہے لیکن ’’مرضئی مولی ہمہ اولی‘‘وہی ہوتا ہے جو خدا کو منظور ہوتا ہے۔یہ شب حضرت مولانا کی زندگی کی آخری شب تھی اور صرف آپ کی نہیں بلکہ ہر صاحب تعلق اور خادم کے لئے یہ شب آخری تھی کہ اس کے بعد سایہ عاطفت اور ظل رشد وہدایت سر سے اٹھنے والا تھا۔ رات بھر بے ہوشی طاری رہی ،دو ایک بار آبِ زمزم منھ میں ڈالا گیا تو اس کے اترنے میں بھی دقت پیش آئی اس کی وجہ سے اس کا منھ میں ڈالنا بھی چھوڑدیا گیا رات گزری دن گزرا پورے چوبیس گھنٹے عالم بے ہوشی میں گزرے آخر کار وہ وقت آہی گیا جس کا عمر بھر انتظار تھا۔ ؎ جس وقت کا دھڑکتا تھا وہ وقت آگیا آخر چہار شنبہ ۱۵ربیع الثانی ۱۳۴۶ھ کو بعد عصر بآواز بلند اﷲ اﷲ کہنا شروع کیا اور اﷲ اﷲ کہتے کہتے آنکھیں دفعتاً بند کر کے خاموش ہوگئے اور روحِ قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔انا ﷲ واناالیہ راجعون۔اور وہ بیقرار شخصیت جو عمر بھر اس تمنا میں تڑپتی رہی کہ محبوب کے قدموں پر اپنی جان دے،تمنا پوری ہوئی،اور وہ قرار حاصل کرکے بقیع پاک میں آسودہ خاک ہوا۔ جان ہی دیدی جگرنے آج پائے یار پر عمر بھر کی بیقراری کو قرار آہی گیاتجہیز و تکفین :