حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت مولانا منگلور میں تقریبا پانچ سال رہے، اس پانچ سالہ دور میں آپ نے درس وتدریس کا کام بحسن وخوبی انجام دیا، اہل مدرسہ آپ سے مطمئن اور طلبہ آپ کے درس سے مستفید ہوتے رہے، اس درمیان میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جس سے دل اچاٹ اورمنگلور کے قیام سے بے دلی پیدا ہو۔بھوپال میں : حضرت مولانا منگلور میں تھے کہ ریاست بھوپال کے مدارالمہام مولانا جمال الدین کی جانب سے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی کی خدمت میں یہ درخواست پہنچی کہ حضرت والا بھوپال تشریف لاکر قیام فرمائیں، آپ کی خدمت میں تین سو مشاہرہ پیش کیاجائے گا، حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب صبروقناعت کے پیکر اور زہدوتقویٰ کے مجسمہ تھے، ان کو دارالعلوم دیوبند میں صرف تیس روپے مشاہرہ ملتے تھے ،آپ نے تین سو روپے پرتیس روپے کو ترجیح دی، مولانا جمال الدین نے پھر اصرار کیا اور آپ نے انکار بات یہاں تک پہنچی کہ مولانا جمال الدین نے آخر میں یہ عرض کیا کہ حضرت تشریف نہیں لاتے تو اپنے کسی معتمد کو بھیجنے کی زحمت گواراہ فرمائیں، مولانا جمال الدین استاذ الکل مولانا مملوک علی کے شاگرد تھے، اس لئے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نے ان کی خواہش کااحترام کرتے ہوئے اپنے بھانجے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری کو بھوپال جانے کاحکم دیا حضرت مولانا نے اپنے ماموں کاحکم مانتے ہوئے اپنے شیخ ومرشد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے اجازت طلب کی، اجازت ملنے پر بھوپال روانہ ہوگئے ، مولانا جمال الدین نے اس خیال سے کہ آپ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کے بھانجے اور استاذ محترم مولانا مملوک علی صاحب کے نواسے ہیں محبت وشفقت کا معاملہ کیا اور پچا س روپے مشاہرہ پر مدرسہ سلطانیہ میں درس وتدریس کے فرائض آپ کے سپرد کئے۔ بھوپال اس وقت والیۂ بھوپال اور مولانا جمال الدین مدارالمہام کی علم دوستی کی وجہ سے اسلامی ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ دینی علوم ومعارف کا گنجینہ اور علماء و مشائخ کا مرکز بنا ہوا تھا، ۱۲۸۵ھ میں شاہجہاں بیگم، بھوپال کی والیہ بنیں علم وادب، سیاست ووجاہت میں اپنے ہمعصروں میں امتیاز پیداکیا، اپنے پہلے شوہر نواب باقی محمد خاں کے انتقال پر نواب سید صدیق حسن صاحب بخاری قنوجی سے شادی کی جس کی وجہ سے بھوپال میں علماء ومشائخ کااجتماع ہوگیا۔مفتی عبدالقیوم صاحب بڑھانوی سے سندحدیث : یہی وہ دور ہے جب کہ مولانا عبدالحی بڑھانوی کے بلند پایہ صاحبزادے مفتی عبدالقیوم صاحب بڑھانوی بھوپال کے مفتی تھے، آپ کی خدمت میں علماء حاضر ہوتے اور حدیث کی سند لیا کرتے تھے، حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری نے بھی آپ کی ذات گرامی کو غنیمت جان کر بخاری شریف اور ترمذی شریف آپ سے پڑھی اور اجازت لی۔