حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وخواہش جو پہلے سے دل ودماغ میں جاگزیں تھی ختم ہوتی نظر آئی لیکن آپ نے اپنے اکابر اور والد ماجد کی خواہش اور آمادگی کے خلاف اپنی رائے دینا خلاف ادب سمجھا اور صبروتحمل کو کام میں لاکر سر تسلیم خم کردیا، خاندان کے اکابر نے آپ کو اورآپ کے چچا زاد بھائی مولانا صدیق احمد کو انگریزی اسکول میں جدید تعلیم کی خاطرداخل کردیا، آپ نے انگریزی اسکول میں اپنی ذہانت وذکاوت سے بہت جلد انگریزی سیکھنی شروع کردی اور حروف پہچان کر جملے بنانے لگے آپ کا انگریزی ماسٹر ہندوتھا ،اس نے آپ کی اتنی جلدی انگریزی میں قابلیت پیدا کرلینے پر بڑی حیرت کااظہار کیا۔ اس ساری ذکاوت اور انگریزی میں مہارت کے باوجود طبیعت کسی طرح بھی انگریزی زبان سے مانوس نہ ہوسکی خدا کو آپ سے دین کا بڑا کام لینا منظور تھا، اور لاکھوں آدمیوں کی اصلاح باطن آپ کو کرنی تھی، اس لئے آپ کی طبیعت انگریزی سے اور جدید علوم سے اچاٹ ہوتی گئی اور توحش اتنا بڑھ گیا کہ اس کو چھوڑنے کی ترکیب سوچنے لگے، مولانا عاشق الٰہی میرٹھی لکھتے ہیں: ’’گوآپ نے بڑوں کی تعمیل حکم میں انگریزی شروع کردی تھی مگر دل اچاٹ تھا اور وہ قلب جو علوم عربیہ کا لذت آشنا ہوچکا تھا اس کا خواہشمند تھا کہ کاش علوم دین کی تعلیم کا کوئی بہترین انتظام ہوجائے اور یہاں سے چھٹکارا نصیب ہو۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل : ۲۳۰)دارالعلوم دیوبند میں : حضرت مولانا کو اپنی انگریزی تعلیم پر جو اضطراب اور بے چینی تھی اس کی وجہ سے اپنے بڑوں اور بزرگوں کو اشارۃ کنایۃ اپنی بے چینی اور اضطراب سے مطلع کرتے رہتے اور دوبارہ عربی پڑھنے اور دینی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہتے تھے مگر عربی ودینی تعلیم حاصل کرنے کے کسی معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اصرار نہیں کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ کا کرنا کہ محرم ۱۲۸۳ھ کو دیوبند ضلع سہارنپور میں دارالعلوم کی بنیاد پڑی اور آپ کو اس کی خبر ملی تو عربی کا شوق فزوں سے فزوںترہوا اور جب یہ معلوم ہوا کہ اس مدرسہ کے صدر مدرس آپ کے ہی حقیقی ماموں، مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی مقررہوئے ہیں تو ارادہ عزم میں بدل گیا اور اپنے والدین کی خدمت میں اپنی خواہش اور دارالعلوم دیوبند میں اپنے ماموں کی آغوش تربیت میں رہ کر پڑھنے کااظہار کیا اور اجازت طلب کی، والدین نے اس خیال سے کہ یہ مدرسہ عربی کا مستند مدرسہ ہے اور اس کے صدر مدرس مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی ہیں جو صاحبزادے کے حقیقی ماموں ہیں وہاں پڑھنے سے دینی تعلیم بھی حاصل ہوگی اور ماموں کی آغوش محبت میں رہ کر گھر کی سی راحت بھی ملے گی، بخوشی اجازت دیدی اور آپ اپنے شفیق ماموں کی خدمت میں پہنچ گئے، حضرت مولانا اپنے دیوبند جانے اور تعلیم حاصل کرنے کے متعلق خود بیان کرتے ہیں: ’’میں اور برادر مولوی عبداللہ وبرادر مولوی صدیق احمد مدرسہ دیوبند میں داخل ہوئے، شرح جامی تک پڑھ چکے تھے مگر مولانا محمد