حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھر خود تلاوت فرماتے اور رات بھر سماعت فرماتے شاید دو تین گھنٹے شب و روز سوتے ہوں اس رمضان میں آپ نے ایسی محنت فرمائی کہ دیکھنے والے حیرت میں پڑجاتے کہ اتنا ضعف و ناتواں شخص جو ابھی ابھی بیماری سے اٹھا ہے جس میں نہ چلنے کی طاقت ہے نہ بولنے کی وہ دن کے بارہ گھنٹے کلام الٰہی کی تلاوت کس ذوق وشوق اور والہانہ طور پر کررہا ہے اور جب رات آتی ہے تو اس کا ذوق عبادت اور شوق تلاوت و سماعت دوچند ہوجاتا ہے اور غذا کیاہے؟دو چار فنجان چائے اور آدھی چپاتی جس مختصر غذا اور مسلسل محنت و عبادت ،تلاوت کے ساتھ گزارا وہ جوان سے جوان اور محنتی سے محنتی شخص کے لئے عبرت و موعظت کا سامان ہے مولانا عاشق الٰہی صاحب آپ کی محنت و مشقت کا حال دو جملوں میں بیان کرتے ہیں: ’’وہ مبارک مہینہ اس مجاہدہ تامہ میں گزرا کہ بیان کرنے کی طاقت نہیں ہے۔‘‘ایک خواب اور اس کی تعبیر : حضرت مولانا نے علیل ہونے سے ایک دن پہلے خواب میں دیکھا کہ میں ایک مکان میں ہوں جس کے نیچے تہ خانہ ہے اور چھت اس کی تختوں سے پٹی ہے اس میں سے دو تختے نیچے کو جھکے ہیں اور نکل گئے ہیں پس میں بہت سہولت سے اس تہ خانہ میں اتررہا ہوں وہاں پہنچ کرکیا دیکھتا ہوں کہ وہ بہت بڑا اور اچھا چونہ قلعی کیا ہوا روشن مکان ہے اور اس میں ایک طرف دروازہ ہے جس سے روشنی وغیرہ آتی ہے لیکن لوٹنے کا ارادہ انہیں تختوں کی طرف سے جدھر سے آیا ہوں کررہاہوں ۔‘‘حضرت مولانا نے یہ خواب بیان فرماکرکہا اس کے بعد میرا خیال دوسری طرف چلا گیا اور پھر آنکھ کھل گئی اس خواب کے بیان کرنے کے بعد ہی خود تعبیر یہ بتائی کہ : ’’وقت تو جب کبھی ہو مگر یہ میرے لئے بشارت ہے کہ انشاء اﷲ قبر میںسہولت ہوگی اور وہ دروازہ دروازئہ جنت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔‘‘ خواب کے بعد ہی آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ کو بلایا اور فرمانے لگے: ’’جو کچھ تمھارے حقوق میرے ذمہ ہوں یا میں نے تم کوبرا بھلا کہا ہو وہ سب اﷲ واسطے معاف کردو۔‘‘ اس کے بعد اپنے برادر نسبتی حاجی مقبول احمد صاحب سے جو ایک زمانہ سے آپ ہی کے پاس رہتے تھے فرمایا: ’’میں تم پر بہت مرتبہ خفا ہواہوں اور اکثر برا بھلا کہا ہے تم بھی معاف کردو۔‘‘فالج کا اثر : ۲۷ رمضان مبارک کو حضرت مولانا پر فالج کا اثر ہوگیا نزلہ زکام اور اس کی وجہ سے ضعف و نقاہت کا اثر تو تھا ہی فالج کا مزید اثر پڑا تو آپ کا چلنا پھرنا مشکل ہوگیا عید کے دن بھی آپ معذور تھے کہ نماز عید کے لئے مسجد نبوی جو مکان سے بالکل متصل تھی تشریف نہ لے جاسکے،لیکن کبھی افاقہ ہوجاتا کبھی مرض عود کر آتا اسی حال میں رمضان کے آخری ایام گزرے عید آئی اور گئی ، اور آپ کی طبیعت پوری طرح صاف نہ ہوسکی اور طبیعت میں اضمحلال بڑھتا ہی گیا۔حضرت شیخ الحدیث صاحب مع اپنے رفقاء کے