حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ساتھ عقیدت واحترام کا معاملہ فرماتے ہیں، اس طرز عمل کا ذکر مولانا عاشق الٰہی میرٹھی اس طرح کرتے ہیں: ’’آپ بھی یہ دیکھتے تھے کہ آپ کے استاذمولانا محمد مظہر صاحب جن کے تبحر علم اور کمالات قدسیہ کی ایک خاص عظمت آپ کے قلب میں جاگزیں تھی، گو عمر میں حضرت گنگوہی سے بڑے تھے مگر عقید تمندانہ حاضر آستانہ ہوا کرتے اور بے اختیار حضرت کے پاؤں پر بوسہ دیکر آنکھوں میں آنسو بھر لایا کرتے تھے، حضرت امام ربانی شرماتے اور فرمایا کرتے کہ مجھے کیوں نادم بنایا کرتے ہیں، آپ تو مجھ سے بڑے ہیں، آپ کا ادب واحترام مجھ پر ضروری ہے آپ ایسا کام نہ کیا کریں کہ مجھے شرم آتی ہے ، مگر حضرت مولانا محبت سے مجبور تھے، پھر آپ کے شاگرد رشید مولوی خلیل احمد صاحب کے قلب میں حضرت گنگوہی کی جو بھی عظمت پیدا ہو وہ تھوڑی ہے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل ۵۵)بیعت وارادت : حضرت مولانا ۱۲۸۸ھ میں جب کہ آپ کی عمر انیس سال کی تھی اور مظاہر علوم سے تکمیل علوم کرچکے تھے، درس وتدریس کے لئے منگلور ضلع سہارنپور تشریف لے گئے، آپ جب منگلور پہنچے تو وہاں بھی ایک بزرگ قاضی محمد اسماعیل صاحب منگلوری کا حلقہ قائم تھا، آپ گاہے گاہے ان کی خدمت میں بھی تشریف لے جاتے اور ان کے حلقے میں شریک ہوکر تصوف وسلوک کی طرف متوجہ ہوئے، دل میں عبادت کا ذوق وشوق اور ایک خاص قسم کی کیفیت محسوس کرنے لگے، لیکن حضرت گنگوہی سے اتنی زیادہ عقیدت پیدا ہوچکی تھی کہ انہیں سے بیعت ہونا چاہتے تھے جب یہ بے کلی جو آپ کو سلوک ومعرفت کی تعلیم حاصل کرنے کی طرف مجبور کرنے لگی تو آپ نے پختہ ارادہ کرلیا کہ جلد از جلد حضرت گنگوہی کی خدمت میں حاضر ہوکر غلامی کا شرف حاصل کریں گے، آپ کا ذہن ودماغ ، آپ کا بے چین دل اس وقت کا شدید منتظر تھا کہ یہ مبارک کام انجام تک پہنچے۔ آپ کے بیعت ہونے کے مختلف ذریعے ہم کو ملتے ہیں، پہلا ذریعہ وہ ہے جس کو ’’تذکرۃ الخلیل‘‘ میں نقل کیا گیا ہے، اور دوسرا ذریعہ وہ ہے جو خود حضرت مولانا نے بیان فرمایا ہے اور یہی زیادہ صحیح اور مستند معلوم ہوتاہے، تاہم ہم دونوں واقعات تحریر کرتے ہیں:پہلاذریعہ : پہلا ذریعہ یہ ہے: ’’آپ نے اپنے ماموں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کو کہ حضرت گنگوہی کے استاذ زادے تھے، اور حضرت ان کا بہت لحاظ فرماتے تھے، اس مقصود کا واسطہ بنایا اور لکھا کہ حضرت گنگوہی سے میری سفارش فرمادیجئے کہ مجھے بیعت کرلیں، مولانا نے امام ربانی کے نام خط تحریر فرماکر حضرت کے پاس بھیج دیا اور وہ خط لے کر آپ گنگوہ حاضر ہوئے، حضرت گنگوہی نے استاذ زادے کا خط پڑھ کر اس طرح