حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت مولانا جب مکہ مکرمہ پہنچے تو حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اجازت وخلافت : حضرت گنگوہی ؒ نے حضرت حاجی صاحب کو حضرت مولانا کے بلند احوال، استعداد ، اور صلاحیت کے متعلق تحریر فرمایا جس کو دیکھ کر حضرت حاجی صاحب نے حضرت مولانا کو خلافت عطا فرمائی اور خلعت فاخرہ سے سرفراز فرمایا جس کی تفصیل بیعت وارادت کے باب میں گزرچکی ہے ، مولانا عاشق الٰہی صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’یہی وہ مبارک سفر ہے جس میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ کا خلافت نامہ آپ کو ملا اور عمامہ مطہرہ فرق اقدس پر رکھا گیا کہ ہر دوعطیے آپ نے اپنے مرشد مطاع کے سامنے رکھدئیے اور پھر جب وہ حضرت کی طرف سے عطا قرار پائے تو ان کو سر آنکھوں پر رکھ لیا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۱۰۸) حضرت مولانا پانچ ماہ بعد مارچ ۱۸۸۱ء مطابق ربیع الاول ۱۲۹۸ھ میں اپنے وطن واپس آئے اور بھاولپور تشریف لے گئے۔سید چراغ علی شاہ کی ایذا رسانی اور آپ کا کلمۂ حق اور استغنا : مدرسہ دینیات جس کے اولا آپ صدر مدرس تھے وہ ریاست کے فرشتۂ تعلیم کے ماتحت تھا، اس زمانہ میں آپ کے افسر ایک متعصب شیعہ سید چراغ علی شاہ تھے، جب آپ ان کے پاس کسی کام کی خاطر جاتے تو وہ مذہبی اور اختلافی مسائل چھیڑ دیتے تھے اور اہل سنت پر علمی اور غیر علمی اعتراضات کیا کرتے، آپ اس خیال سے کہ وہ افسر ہیں اور آپ ماتحت جوابات دینے میں ان کے لحاظ وادب کاخیال رکھتے لیکن جب آپ نے دیکھا کہ وہ خاموش نہیں رہتے اور ان کا سلسلہ گفتگو دراز ہی ہوتا جاتاہے اور ان کی زبان سے تکلیف دہ باتیں نکلتی ہیں جن پر صبروتحمل دشوار ہے تو ان کو کسی ذریعہ سے کہلایا کہ میرا آپ کا معاملہ ماتحتی وافسری کاہے، میں دینی معاملات میں آپ کا لحاظ نہیں کرسکتا، بہتر ہے کہ آپ ان معاملات میں گفتگو نہ فرمائیں۔ لیکن سید چراغ علی شاہ اپنی عادت سے باز نہ آئے، آپ کو اور پریشان کرنا شروع کردیا، مجبور ہوکر آپ نے ریاست کے وزیر اعظم کے سامنے اپنا استفیٰ پیش کردیا، وزیر اعظم نے استفیٰ کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا: ’’سید چراغ علی شاہ صاحب مذہبی چھیڑ چھاڑسے باز نہیں آتے اور مجھے ان کی افسری کے سبب ضروریات مدرسہ کے لئے ان کے پاس جانا ضرور ، پس جواب دوں تو ان کی طرف سے مضرت دنیا کا اندیشہ اور جواب نہ دوں تو دینی نقصان، اور منصب کے خلاف اس لئے یہی مناسب معلوم ہوا کہ عزت وآبرو کے ساتھ علیحدگی اختیار کرلوں۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۱۱۵) آپ کی اس جرأت مندانہ گفتگو ، آپ کے استغناء اور حق بات کہنے کا اثر وزیر اعظم پر یہ پڑا کہ آپ کو سید چراغ علی شاہ کی