حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مولانا سید عبدالحی صاحب ؒ ۱۳۱۲ھ کو علمی مراکز کے دورہ میں جب کہ ان کی عمر چھبیس سال کی تھی، حضرت گنگوہی کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے تھے، آپ نے جو دیکھا اورحضرت کی شخصیت سے جس طرح متاثر ہوئے وہ انہیں کے الفاظ میں پڑھئے وہ لکھتے ہیں: ’’اس میں شک نہیں کہ مولوی صاحب بقیۃ السلف ہیں، ان کا وجود معتنمات میں سے ہے، اس تورع واستقامت کا دوسرا شیخ ان کے سوا اس زمانہ میں عالم آشوب میں نظر نہیں آتا، علم الٰہی میں جو کوئی ہو اس کی خبر نہیں، مولوی صاحب کے اوصاف میں سب سے بڑا وصف تورع ہے جو تمام اوصاف کو شامل ہے، کف لسان اور صدق گفتار میں مولوی صاحب ضرب المثل ہیں، اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے صدقہ اس رو سیاہ کے حال پر رحم فرمائے، اس کے دل کی تاریکی دور ہو اور کسی قدر چاشنی احسان کی عطا فرمائی جائے۔ الٰہی عبدک العاصی أتاک مقرا بالذنوب وقد دعاک {رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاسکتۃ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ} [الأعراف:۲۳] شا از کرم برمن درویش نگر برحال من خستہ ودل ریشن نگر ہر چند نیم لائق بخشائش تو برمن منگر برکرم خویش نگر‘‘ (دہلی اور اس کے اطراف) آپ کی تصانیفات میں امدادالسلوک، ہدایۃ الشیعۃ، زبدۃ المناسک، ہدایۃ المعتدی، سبیل الرشاد، فتاویٰ رشیدیہ مشہور ہیں، آپ کے شاگرد رشید مولانا محمدیحییٰ صاحب کاندھیلوی نے آپ کی ترمذی اور بخاری کی تقریروں کو جمع کیا اور ان کے صاحبزادے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریاصاحب ؒ نے علی الترتیب الکوکب الدری اور اللامع الدراری کے نام سے شائع کیں۔ آپ کے خلفاء میں حضرت مولانا محمدخلیل احمد سہارنپوری ، مولانا صدیق احمد صاحب امبیٹھوی ،مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری ؒ ، شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ ،شیخ الاسلام مولانا سیدحسین احمد مدنی ؒ قابل ذکرہیں۔ حضرت مولانا گنگوہی ؒ کی وفات ۱۳۲۳ھ میں ہوئی۔حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کے اسلاف اور وطن : ایوبی سلسلہ کی جو شاخ سہارنپور اور اطراف سہارنپور میں قیام پذیر ہوئی، اس میں ایک بزرگ محمدفضیل نامی تھے جو گنگوہ