حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ داعی الی اللہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب ؒ اور اورشیخ وقت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا صاحب ؒ جیسے شیوخ کاملین جن کی ذات سے لاکھوں انسانوںکو فائدہ پہنچا ہے آپ کے حلقہ بگوش اور تربیت یافتہ ہیں اور جس کاکچھ اندازہ ان مکاتیب سے کیاجاسکتاہے جو آپ نے اپنے خلفاء ومریدین کے نام سلوک وتصوف کے مسائل، مقامات ومشکلات کے سلسلہ میں لکھے ہیں، دوسری طرف ان کو حدیث کی خدمت کا شغف اور انہماک حضرت گنگوہی ؒ کی وراثت و خلافت میں ملا، ساری عمر حدیث کا درس دیا اور ’’بذل المجہود‘‘ جیسی بلند پایہ کتاب یادگار چھوڑی، جس نے ان کی محدثیت ووسعت نظر اور رسوخ فی العلم کا سکہ قائم کردیا، سلسلۂ چشتیہ صابریہ میں اس اونچے مقام پر فائز ہونے کے بعد جس کا اعتراف شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی صاحب ؒ نے ان الفاظ میں کیاتھاکہ: ’’تم میرے سلسلہ کے فخر ہو مجھے تم سے بہت خوشی اور مسرت ہے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۳۵۲) دوسری طرف وہ اپنے شیخ کی طرح اس مسلک اور راستہ پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم اور اس کی حقانیت ومقبولیت کے قائل تھے جس کی راہ کم سے کم ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے اپنی تصنیفات اور حضرت سید احمد شہید ؒ نے اپنی کتاب ’’صراط مستقیم‘‘ اور حضرت شاہ اسماعیل شہید ؒ نے’’تقویۃ الایمان‘‘ کے ذریعہ ہموار کی تھی، اس حمایت اور حمیت نے آپ کے قلم سے ’’انوار ساطعہ ‘‘ کے جواب میں ’’براہین قاطعہ‘‘ لکھوائی جس کی وجہ سے آپ مخالفین ومعترضین کا سب سے بڑھ کرہدف بن گئے اور آج تک بنے ہوئے ہیں، جس کا کچھ اندازہ ’’حسام الحرمین‘‘ اور ان درجنوں بلکہ بیسیوں رسائل وتحریرات سے ہوسکتاہے جوآپ کی مخالفت وتردیدمیں لکھی گئی ہیں لیکن آپ تادم واپسیں اسی مسلک پر قائم اور اسی پر مطمئن ومنشرح رہے، اسی جذبہ نے آپ کے قلم سے فرقہ اثنا عشریہ کی تردید میں’’ہدایت الرشید‘‘ لکھوائی، یہی جذبہ آپ کو ان مناظروں میں شریک ہونے اور اہل سنت اور مسلک صحیح کی طرف سے مدافعت اور احقاق حق پر آمادہ کرتا تھا جن سے آپ کی یکسو، عزلت پسند اور علمی ذوق رکھنے والی طبیعت کو بہ ظاہر کوئی مناسبت نہ تھی۔ اس باطنی مشغولیت ،خلوت پسندی ، یکسوئی کے ساتھ (جوآپ کے شیخ کی خاص نسبت ہے) آپ مسلمانوںکے اجتماعی وملی نفع کے لئے اجتماعی کاموں میں شریک ہوتے تھے، مدرسہ مظاہر علوم کی صدارت تدریس کی مسند کو زینت بخشی، پھر اس کی سرپرستی قبول فرمائی جو آخر دم تک جاری رہی، اسلام کی سربلندی ، مقامات مقدسہ اور ممالک اسلامیہ کی آزادی اورہندوستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کے مفاد کے لئے اپنے محب اور محبوب دوست اور برادر طریقت شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب ؒ کی کوششوں میں شریک ، ان کے مشیر اور ان کے سچے ہمدرد اور قدرداں رہے اور جہاں تک ہوسکا ان کی تقویت وتائید سے دریغ نہ کیا، یہ سب اسی جامعیت کا پر توتھا جو آپ کو اپنے شیخ کامل سے وراثت ونیابت