حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
فتنے پانی کی طرح برس رہے تھے ہزاروں، لاکھوں مسلمانوںکے قلوب کو زندہ ، دماغوں کو صیقل اور اخلاق کو آراستہ کیا، کسی نے علم حدیث کی نشرواشاعت اور اساتذہ کی تعلیم وتربیت کاوسیع پیمانہ پر کام کیا، کسی نے تطہیر عقائد اور اصلاح رسوم کا فرض انجام دیا، کسی نے قلوب کو عشق الٰہی اور حب نبوی ﷺ سے نرم وگرم کیا اور ان کے ذریعہ سے ہزاروں بندگان خدا درجۂ احسان کو پہنچے، کسی نے جہاد حریت کاصور پھونکا، اور اعلاء کلمۃ اللہ کی کوشش کی، کسی نے تصنیف وتالیف کے ذریعہ دین وعلم کی خدمت کی ان میں سے ہر ایک اپنے رنگ میں کامل اور ہمارے پورے احترام وتوقیر کا مستحق ہے۔ لیکن کسی کی ادنیٰ تنقیص واعتراض کے بغیر یہ کہاجاسکتاہے کہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ کو اپنے شیخ ومرشد سے خاص نسبت تھی جس کو ’’مناسبت تامہ‘‘، اعمال کامل‘‘ اور آخری درجہ میں فنائیت فی الشیخ کے الفاظ سے عام طور پر ادا کیاجاتاہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ کو اپنے شیخ کی جامعیت وہمرنگی کا، بلکہ ایک درجہ میں محبوبیت کا شرف ملا جس کا کسی قدر اندازہ ان الفاظ سے کیاجاسکتاہے، جو حضرت گنگوہی ؒ نے اپنے بعض مکاتیب میں آپ کے لئے استعمال کیے ہیں، ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: ’’آب التفات بندہ کا آپ کی طرف سائلانہ، نہ معطیانہ‘‘ من دق باب الکریم انفتح۔ (مکاتیب رشید ۴/۴۱)۔ ایک دوسرے مکتوب میں فرماتے ہیں: ’’تم کو اپنا فخر وباعث نجات جانتاہوں، کچھ نہیں ہوں مگر اچھوں سے مربوط ہوں۔‘‘ (أیضا) ۔ایک جگہ آپ کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ: ’’پس یہ نسبت (یادداشت واحسان) کرشمہ اس کا میرے سعید ازلی قرۃ العین خلیل احمد کو نصیب ہوئی جس پر ہزار فخرونازیہ بندہ ناساز کرکے اپنا وسیلہ قرار دئیے مطمئن بیٹھا ہے۔(أیضا) آپ کی اس جامعیت کا(جس میں آپ اپنے شیخ کے پورے جانشین نظر آتے ہیں) ہلکا سا اندازہ اس سے کیاجاسکتاہے کہ ایک طرف آپ کی قوت نسبت باطنی، سلوک کے دقائق سے آگاہی، اور اس راہ کے نشیب وفراز سے واقفیت حضرت گنگوہی ؒ کے خلفاء میںمسلم ہے، یہاں تک کہ شیخ المشائخ حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائپوری ؒ جیسے مبصر اورشیخ کامل نے اپنے جانشین حضرت مولانا عبدالقادر رائپوری ؒ کی وفات کے وقت فرمایا تھا: ’’سیاسیات میں جو کچھ مراجعت کرنی ہو حضرت شیخ الہند کی طرف کی جائے، مگر سلوک میں حضرت سہارنپوری کی طرف میں نے حضرت کو اس لائن میں بہت اونچا پایاہے۔‘‘ (سوانح حضرت مولانا عبدالقادر رائپوری ؒ :۸۰)