حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
علاقہ بن گیا جس میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒ سے علمی ومعنوی انتساب رکھنے والے بزرگوں اور ان کے سلسلۂ درس سے تیار ہونے والے فضلاء اور حضرت سید احمد شہید ؒ قدس سرہ اور ان کی جماعت کامسلک رکھنے والے مشائخ وعلماء نے جابجا دینی مدرسے اور خانقاہیں قائم کی تھیں ، کچھ ہی عرصہ بعد اس پورے سلسلہ کی قیادت وسرپرستی اسی سلسلہ کے ایک عالم ربانی شیخ کامل ، محدث جلیل حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے حصہ میں آئی، جس کو ان چاروں گروہوں کی (جن کا اوپر ذکر آیا) وراثت سے حصہ وافر ملاتھا۔ اور ان چاروں کے ذوق ورجحان ان کی ذات میں آکر جمع ہوگئے تھے، وہ ایک طرف شریعت وطریقت کے مجمع البحرین ، محدث وفقیہ، ناشر سنت ، ناجی بدعت، حدیث کے بلند پایہ مدرس وشارح، تصوف وسلوک میں مجتہدانہ مقام پر فائز، اعلاء کلمۃ اللہ اور جہاد کے جذبہ سے سرشار دوعظیم مدرسوں(دارلعلوم دیوبند، مظاہرالعلوم سہارنپور) کے سرپرست استاذ الاساتذہ اور شیخ الشیوخ تھے ایک طرف وہ تربیت وسلوک کی تعلیم دیتے اور اس سلسلہ میں مشائخ چشت سے (جن سے وہ نسبت باطنی رکھتے تھے) ذوق اوردرد محبت کی دولت سے ان کو بہرہ وافرملاتھا، دوسری طرف وہ مشائخ نقشبندیہ مجددیہ(جن سے ان کو حضرت سیداحمد شہید ؒ کے ذریعہ سے انتساب حاصل تھا) کی تمکین ووقار، استقامت علی الشریعۃ اور اتباع سنت کی دولت سے مالامال تھے، ایک طرف وہ اپنے زمانہ کے مسلم فقیہ تھے جو عام طور پر فقہ حنفی کے مطابق فتویٰ دیتے دوسری طرف حدیث کی تدریس میں ان کا وہ مقام تھا اور اس میں ان کا شغف اتنا بڑھا ہوا تھا کہ گنگوہ طالبان علم حدیث اور فضلاء مدارس کا ملجا وماویٰ بن گیا تھا، جہاں تک عقائد ومسلک کا تعلق تھاوہ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ اور حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید ؒ کے پورے متبع ان کے ولایت ومقبولیت کے قائل ومعتقدتھے، اور ’’تقویۃ الایمان‘‘ کے لئے سینہ سپر تھے، یہ گوناگوں اوربظاہر متضاد رنگ ان کی ذات میں پہلو بہ پہلو نظر آتے ہیں، طبیعت کی یکسوئی اور گوشہ گیری کے باوجود وہ مسلمانوں اوراسلام کی فکر سے خالی اور ان مفید کاموں اور اداروں کی معاونت وسرپرستی سے بے تعلق نہیں تھے جو ان کے مخلص دوستوں ،رفقاء کار یا شاگردوں نے علم دین کی اشاعت اور تبلیغ ودعوت کے لئے قائم کیے وہ بیک وقت دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور کے سرپرست بھی ہیں اور ان کے اخلاقی وروحانی نگران اور مربی بھی۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کو اللہ تعالیٰ نے جیسے مخلص وجانثار، مطیع ومنقاد، صاحب علم وفضل اورباکمال مریدین وخلفاء عطا فرمائے ،ویسے (ہمارے ناقص علم میں اور کم سے کم اس دورمیں) کم کسی شیخ طریقت اور مربی روحانی کو ملے ہوں گے ان ممتاز ترین مریدین وخلفاء میں جس کے حالات سنئے، یا تذکرہ پڑھیے ، معلوم ہوتاہے کہ بس یہی فرد فرید اور مریدِرشید تھا، اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کی ذات سے اس پرآشوب دورمیں کہ الحاد، بے دینی کے بادل امنڈ رہے تھے اور