حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ودرویشی کی دجل وتبلیس کا آلۂ کار بن گئے جو۔ { } [سورۂ توبہ آیت: ۳۴] ’’بہت سے عالم اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے اور (ان کو) راہ خدا سے روکتے ہیں۔‘‘ کے صحیح مصداق ہیں، اس لئے اس ملک کی سب سے بڑی ضرورت مدارس دینیہ کا قیام، علوم دینیہ کی اشاعت اور ایسے علماء تیار کرنا ہیں جو صحیح طریقہ پر درس وتدریس وعظ وارشاد،امامت وخطابت اورافتاء کی خدمت انجام دے سکیں، مسلمانوں میں دینی روح، تعلق مع اللہ ،اسلامی غیرت وحمیت قائم رکھیں اور اسلامی شعائر وتہذیب کی حفاظت کریں، یہ ضرورت اس وقت اور بڑھ گئی جب اس ملک میںمسلمانوں کی حکومت واقتدارکاٹمٹماتا ہوا چراغ آخری طور پر گل ہوگیا اور یہ ملک کلیۃ سلطنت انگریزی کے قبضہ وانتظام میں آگیا جس نے صرف اس ملک کانظم ونسق ہی نہیں سنبھالا تھا، بلکہ وہ ایک تہذیب، فلسفۂ حیات ، نظام تعلیم بلکہ عیسائیت کی بھی مبلغ وداعی تھی، اس گروہ نے بڑے پیمانہ پر دینی مدارس کے قیام کو وقت کا سب سے بڑا فریضہ اور مرض کا سب سے بڑا علاج سمجھا، اس گروہ کے رہنما وقائد حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی تھے اسی نورانی فہرست میں مولانا سعادت علی صاحب بانی مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور مولانا عبدالوہاب صاحب دیلوری بانی مدرسہ ’’الباقیات الصالحات‘‘ دیور، مولانا سید محمد علی صاحب مونگیری بانی ندوۃ العلماء لکھنؤ ، مولانا انواراللہ خان صاحب حیدرآبادی ، بانی جامعہ نظامیہ حیدرآباد، مولاناابومحمد ابراہیم صاحب آروی بانی مدرسہ احمد یہ آرہ کا نام آتاہے۔ جزاہم اﷲ عن الإسلام والمسلمین خیر الجزاء۔ یہ چاروں گروہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں اپنی کوششوں میں مصروف تھے، وہ کہیں دہلی میں سرگرم کار نظر آتے ہیں، کہیں ضلع سہارنپور اور مظفر نگر کے دینی مرکزوں میں کہیں رامپور اور لکھنؤ میں اور کہیں پٹنہ، کلکتہ ،امرتسر اورلاہور میں ، کوئی علم حدیث کی تدریس کا بڑا مرکز تھا، کوئی احیاء سنت وردبدعت کا علمبردار کسی پر تربیت باطنی کا رنگ غالب تھا اور کہیں اعلاء کلمۃ اللہ اور جہاد کا جذبہ زیادہ نمایاں ، اللہ تعالیٰ ان سب خادمان دین ووارثان رسول امین کو بہترین جزا عطا فرمائے، کہ انہوں نے دین کی حفاظت کتاب وسنت کی اشاعت اور زمانہ کے فتنوں کامقابلہ کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاہَدُوْا اﷲَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرْ وَمَابَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا۔ ’’مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار انہوں نے خدا سے کیا تھا اس کو سچ کر دکھایا تو ان میں بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر سے فارغ ہوگئے اور بعض ایسے ہیں جو انتظار کررہے ہیں اور انہوں نے (اپنے قول کو) ذرا بھی نہیںبدلا۔‘‘ چودھویں صدی ہجری کے اوائل میں حفاظت دین ، اشاعت علم ،دعوۃ الی اللہ اور رد شرک وبدعت کا ایک بڑا مرکز وہ