حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(حضرت شیخ زادمجدہ) بقلم محمد شاہد غفرلہ ۲۱ رجب المرجب۱۳۹۶ھ سہارنپور مقدمہ (مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ ) الحمدﷲ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ صحیح حدیث میں آتا ہے : ’’العلماء ورثۃ الأنبیاء والأنبیاء لم یورثوا دینارا ولادرہما ولکن ورثوا ہذا العلم فمن أخذ ہ أخذ بحظ وافر۔‘‘ [صحیح بخاري] ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کی میراث درہم ودینار نہیں ہوتے بلکہ ان کا ترکہ یہ علم ہی ہوتاہے تو اسے جس نے حاصل کیا اس نے بڑا حصہ پایا‘‘۔ سب جانتے ہیں کہ ’’میراث‘‘ کے الگ الگ لوازم اور مطالبات ہوتے ہیں اور ایک سچے وارث کو ان لوازم ومطالبات کاپورا کرناضروری ہوتاہے، سلطنت کی میراث کے لوازم ومطالبات اور ہیں، فقرودرویشی کی میراث کے لوازم ومطالبات اور ، مسند علم وتدریس کے ورثہ کے لوازم ومطالبات اور ،سپہ گری وشہ زوری کی وراثت کے لوازم ومطالبات اور ، انبیاء اور کتاب الٰہی کے وراثت کے لئے علم وفہم، حفظ وحفاظت، زہدوتقویٰ، عبادت وانابت اور اس کی حفاظت کے لئے غیرت وشجاعت کی ضرورت ہے، اور ان سب صفات عالیہ سے اس کے وارث کا متصف ہونا ضروری ہے۔ بیہقی کی روایت ہے : ’’یحمل ہذا العلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتأویل الجاہلین۔‘‘[مشکوٰۃ :۲۶ فصل ثاني] ’’اس علم کے ہر نسل میں ایسے عادل اور متقی حامل ووارث ہوں گے جو اس دین سے غلو پسند لوگوں کی تحریف، اہل باطل کے غلط انتساب ودعوے ، اور جاہلوں کی دوراز کار تاویلات کو دور کرتے رہیںگے۔‘‘ اس حکیمانہ ارشاد میں علماء حق کے کام کی نوعیت اور ان کی ذمہ داریوں کا پورا خاکہ اور ان کی زندگی کا دستور العمل آگیا ہے، اسلام کی پوری تاریخ تجدید واصلاح اسی اجمال کی تفصیل اور انہیں فرائض سہ گانہ کی تکمیل(اسلام کو تحریف، غلط انتساب اور جاہلانہ تاویلات سے محفوظ رکھنے کی کوشش) کی تاریخ ہے۔