کنتم لا تعلمون (نحل:۴۳)‘‘ {اگر تم کو علم نہ ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔} اور قادیانی نے اہل ذکر سے پوچھا تو اہل ذکر نے وفات مسیح کی خبر دی۔ لہٰذا مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس آیت سے وفات ثابت ہوتی ہے؟
جواب… ہرگز نہیں۔ بلکہ حیات ثابت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اہل ذکر یا یہود ہیں یا نصاریٰ یا مسلمین۔ تو یہود بھی موت طبعی اور وفات طبعی کے منکر ہیں۔ کیونکہ وہ قتل وصلیب کے قائل ہیں اور نصاریٰ اور مسلمین سرے سے وفات کے منکر ہیں۔ پس جب اہل ذکر سے پوچھا گیا تو سب ہی نے موت طبعی اور وفات کا انکار کیا۔ لہٰذا حیات ثابت ہے۔ خلاصہ اس تمام بیان کا یہ ہے کہ نبوت بغیر اعجاز یعنی ناقابل جواب خرق عادت کے ثابت نہیں ہوسکتی اور نبوت ناقابل تقسیم ہے۔ یعنی نبوت کی تقسیم تامہ اور غیرتامہ اصلی اور فرعی حقیقی اور بروزی کی طرف نہیں ہوسکتی۔ یہ سب الفاظ جعلی ہیں۔ نبوت صرف ایک ہی شے ہے اور وہ وحی ہے اور وحی اﷲتعالیٰ کا بشر سے کلام کرنا ہے اور اس نبوت ووحی کے دعویٰ کا ثبوت انسان کے قول سے نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ انسان کو صدق وکذب دونوں پر اختیار حاصل ہے۔ بلکہ ایسی چیز جو صدق پر مجبور ہو اور صرف صدق ہی اس کو لازم ہو وہ مدعی نبوت کی تصدیق کرے گی۔ لہٰذا کوئی خرق عادت فعل قادیانی سے صادر نہیں ہوا۔ اس لئے وہ صاحب نبوت اور صاحب وحی ہرگز نہیں۔ خوب سمجھ لیجئے۔ خرق عادت فعل وہ ہے جس کا جواب ساری قوم نہ دے سکے۔ وہی مدعی نبوت کی صداقت پر دلیل ہوگا۔ لہٰذا نبوت بغیر معجزہ کے ثابت نہیں ہوسکتی اور نبوت شے واحد ہے۔ اس میں ادنیٰ اور اعلیٰ کا فرق نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے ظلی نبوت اور حقیقی نبوت، تامہ اصلیہ، اور یہ بھی خوب سمجھ لیجئے۔ نبی یا اپنی شریعت لے کر آتا ہے یا پہلے نبی کی شریعت کی تبلیغ کرتا ہے۔ قادیانی نہ اپنی شریعت لے کر آیا ہے نہ شریعت مصطفویؐ کی تبلیغ کر سکتا ہے۔ کیونکہ شریعت مصطفویؐ کی تبلیغ کے لئے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لئے امۃ وسطاً کافی ہے۔ یعنی اﷲتعالیٰ نے قیامت تک اس شریعت کی تبلیغ کے لئے نبوت کا دروازہ بند کر دیا اور صرف امت کو تبلیغ کے لئے مقرر کر دیا۔ اسی لئے اس امت کو امۃ وسطاً اور خیر امۃ ٹھہرایا گیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام حیات ہیں۔ ان کی وفات نہ حس سے معلوم ہے نہ عقل سے نہ مخبر صادق سے مخبر صادق اﷲتعالیٰ کی ذات ہے اور رسول اﷲﷺ ہیں۔ یعنی نہ اﷲ کے کلام کی کسی آیت سے وفات مسیح علیہ السلام ثابت ہے نہ رسول اﷲﷺ کی کسی حدیث میں کسی قول سے ثابت ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا۔