اس بیان سے صاف ظاہر ہوگیا کہ نبی صرف وہ انسان ہے جس سے اﷲتعالیٰ کلام کرے۔ اب یہاں دو باتیں ہونی چاہئیں۔ ایک یہ کہ جس انسان سے اﷲتعالیٰ نے کلام کیا ہے وہ انسان یہ یقین کر لے کہ اﷲتعالیٰ ہی نے مجھ سے کلام کیا ہے۔ کسی اور نے کلام نہیں کیا۔ یعنی اس بشر کو یہ علم ہونا لازمی ہے کہ جس نے اس بشر سے کلام کیا ہے وہ اﷲتعالیٰ ہی ہے۔ اس کے بعد جب وہ بشر مطمئن ہو جائے کہ اﷲتعالیٰ ہی نے اس سے کلام کیا ہے۔ پھر وہ کلام لوگوں کو سنائے تو لوگوں کو مطمئن کر دے کہ یہ کلام، اﷲ تعالیٰ ہی نے مجھ سے کیا ہے اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جو حاکم کسی سے کلام کرتا ہے اور کلام سننے والا حاکم کا کلام سن کر اس محکمہ سے باہر آکر باہر والوں کو وہ کلام سناتا ہے تو باہر والے اس سے کہتے ہیں کہ تجھ سے حاکم نے یہ کلام کس کے سامنے کیا ہے؟ اس کو شہادت کے لئے لا یا، حاکم سے کہہ دے کہ وہ اپنے عملہ میں سے کسی کے ہاتھ ہمیں کہلوادے کہ ہاں میں نے اس شخص سے کلام کیا ہے۔ بس اسی شہادت کا نام معجزہ ہے۔ آیت ہے، نشانی ہے۔ یعنی وہ عملہ اﷲتعالیٰ کی کائنات ہے۔ کائنات میں سے کوئی کائن ایسا فعل کرتا ہے یا ایسا فعل اس کائن سے سرزد ہوتا ہے جو زبان حال سے یہ شہادت دیتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے اس بشر سے کلام کیا ہے۔ یہ فعل کائنات کا کائنات کی عادت کے خلاف ہوتا ہے۔ مثلاً لکڑی کا اژدھا بن جانا اور مردہ کا زندہ ہو جانا۔ مردہ کا زندہ کرنا بشر کی عادت کے خلاف ہے اور مردہ کا زندہ ہونا مردہ کی عادت کے خلاف ہے۔ پس مردہ کے زندہ ہونے میں یہ شہادت دی کہ یہ فعل من جانب اﷲ ہے اور مدعی نبوت سچا ہے اور اﷲتعالیٰ کی طرف سے ہے۔ حاصل یہ ہے کہ خرق عادت یا معجزہ اسی کی طرف سے ظہور پذیر ہوسکتا ہے۔ جس نے عادت مقرر کی ہے۔ لہٰذا وہی عادت کے خلاف کر سکتا ہے اور عادت کا مقرر کرنا من جانب اﷲ ہے۔ لہٰذا خرق عادت اور معجزہ بھی من جانب اﷲ ہے۔ اس لئے نبوت، وحی اور اﷲتعالیٰ کا کلام کرنا ثابت ہی نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ نبوت کا مدعی صاحب معجزہ نہ ہو۔
اس بیان سے واضح ہوگیا کہ ہر نبی صاحب معجزہ ہے اور چونکہ معمولی عجیب سی بات کا ظہور بھی موجب شہرت ہوتا ہے تو معجزہ کا ظہور بدرجہ اولیٰ باعث شہرت ہے۔ یعنی جہاں معجزہ ہوگا وہاں اور چاروں طرف اس کی شہرت ہو جائے گی۔ کیونکہ معجزہ ایسے خرق عادت کو کہتے ہیں جس سے انسانوں کی حسی، عقلی اور روحانی تینوں قوتیں عاجز ہو جائیں۔ اگر غلام احمد قادیانی سے کوئی معجزہ صادر ہوتا تو اطراف عالم میں اس کا چرچا ہوجاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لئے اس میں کوئی