پیش لفظ
ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ ظہور اسلام سے لے کر اس وقت تک جمہور اہل اسلام کے دینی تصورات کی اساس یہی تصور ہے کہ سرور کائناتﷺ کے بعد کوئی (نیا) نبی اور رسول نہیں آئے گا اور آپ کا لایا ہوا پیغام خدا کا آخری پیغام اور آپ کی تلقین وہدایت سب سے آخری تلقین وہدایت ہے۔ قرآن اور آپ کی ہدایتوں کا مجموعہ قیامت تک نسل انسانی کی نجات وہدایت کے لئے کافی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے انہی دو ستونوں کو زمین بوس کرنے کے لئے دو خطرناک فتنے کھڑے کر دئیے گئے۔ ایک فتنہ انکار ختم نبوت، دوسرا فتنہ انکار حدیث۔ علماء کرام نے ان دونوں کا مقابلہ کیا اور ان دونوں کی رد میں کتابیں تصنیف کیں۔ عام مسلمانوں نے ان سے بہت فائدہ اٹھایا اور وقت پر ان فتنوں کی خطرناکیوں سے آگاہ بھی ہوگئے۔ مگر ضرورت تھی کہ اہل علم اور اہل فکر حضرات کی ایسے نکات کی طرف رہبری کر دی جائے کہ عقلی نقطہ نظر سے بھی یہ فتنے کبھی سرنہ اٹھانے پائیں اور کوئی رخنہ ایسا نہ رہ جائے جہاں سے یہ شیطانی ریشہ دوانیاں راہ پا سکیں۔ خدا کا شکر ہے کہ حضرت علامہ حافظ محمد ایوب صاحب دہلویؒ نے جنہیں حق تعالیٰ نے اعلیٰ دینی بصیرت کے ساتھ عقلی علوم میں وہ مقام عطاء فرمایا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل فرمادی۔ پہلے فتنہ انکار حدیث کے نام سے ایک ایسی نادر کتاب تصنیف فرمائی جو تقریباً پاکستان اور بیرون پاکستان میں برابر تقسیم ہورہی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ جس کو پڑھ کر روح وجد کرنے لگتی ہے۔
آپ نے اپنی اس تصنیف میں ایسی ایسی دلیلوں سے فتنہ کے تاروپود بکھیرے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ہوسکتا۔ فضلاء عصر نے اس کو بہت پسند فرمایا۔مختلف علمی رسائل نے اس کو شائع کیا اور کئی مشہور علماء وفضلاء نے اس سلسلہ میں تعریفی خطوط لکھے۔ دوسرا ختم نبوت کے انکار کا فتنہ ہے۔ جب حضرت والا کی توجہ اس طرف منعطف کرائی گئی تو آپ نے عقلی ونقلی دلیلوں پر مشتمل قلم برداشتہ یہ رسالہ مرتب فرمادیا۔ جو آپ کے سامنے ہے۔ جس کی شان ’’خیر الکلام ما قل ودل‘‘ کی ہے۔ یعنی کم سے کم لفظ اور زیادہ سے زیادہ معانی۔ یہی شان آپ کی علمی تقریروں کی بھی ہے۔ مشکل سے مشکل مسائل جن کے لئے بڑے بڑے ارباب فکر ونظر کو حیرانی پیش آئی۔ حضرت والا نے باتوں باتوں میں حل فرمادئیے۔ پیش نظر رسالہ کی نسبت صرف یہ کہنا ہے کہ ذرا غور وفکر کے ساتھ شروع سے آخر تک پڑھ جائیے تو آپ کو عجیب سرور وطمانیت کی کیفیت حاصل ہوگی اور آپ اپنے یقین میں اضافہ محسوس فرمائیں گے۔
مولانا سید عبدالجبار غفرلہ!