ہے اور آپ نے میرے متعلق ’’دروغ گورا حافظہ نباشد‘‘ کہہ کر اپنے پاگل پن کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ لاہوری مجیب پھر پورے جلال میں آکر فرماتے ہیں کہ: ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ بدوملہوی ملا نے محض لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے عمداً جھوٹ بولا ہے۔ اگر اس کے بیان میں ذرہ بھی صداقت ہے تو اسے چاہئے کہ کوئی ایسی صحیح حدیث پیش کرے جس میں مسیح کے نزول کے لئے آسمان کا لفظ موجود ہے اور یہ بھی ثابت کرے کہ مرزاقادیانی کو ایسی احادیث کا علم تھا۔‘‘ (پیغام صلح مذکور)
گویا ایڈیٹر صاحب ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم آسمان کا لفظ صحیح حدیث میں دکھائیں اور ثابت کریں کہ مرزاقادیانی کو اس حدیث کا علم تھا۔ اگر ہم دونوں مطالبات پورے کر دیں تو ہم سچے اور مرزائے قادیان بلاشک وشبہ جھوٹے ٹھہریں گے۔
قادیانی مجیب
قادیانی مجیب کی سادگی ملاحظہ فرمائیے۔ اپنے (رسالہ ص۲۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’حافظ محمد ابراہیم صاحب کے پیش کردہ حوالہ کے الفاظ یا ان کا مفہوم (حمامتہ البشریٰ ص۲۶، خزائن ج۷ ص۲۰۲) پر موجود نہیں۔‘‘
قاضی صاحب! اگر بڑھاپے کی وجہ سے نظر جواب نہیں دے گئی تو میرا پیش کردہ حوالہ حمامتہ البشریٰ مطبوعہ سیالکوٹ کے ٹھیک ص۲۴ کے حاشیہ کی سطر۴،۵ اور ص۴۰ کی سطر ۴،۵ میں موجود ہے۔ ایک بار حمامتہ البشریٰ پھر دیکھئے اور عینک لگا کر دیکھئے۔ ضرور نظر آجائے گا ؎
خزاں نہ تھی چمنستان دہر میں کوئی
خود اپنا ضعف نظر پردۂ بہار ہوا
لطیفہ
اس کے بعد قاضی صاحب فرماتے ہیں۔ البتہ (حمامتہ البشریٰ کے ص۵۴) پر جو الفاظ ہیں وہ یہ ہیں۔ ’’پھر اس قوم پر سخت تعجب ہے کہ نزول مسیح سے یہی خیال کرتی ہے کہ وہ آسمان سے اترے گا اور آسمان کا لفظ اپنی طرف سے ایزاد (زیادہ) کر لیتے ہیں اور کسی صحیح حدیث میں اس کا اثر ونشان نہیں۔‘‘
مرزائی دوستو! قاضی صاحب نے جن الفاظ کا لفظی ترجمہ کیا ہے۔ میں نے انہیں الفاظ کا مفہوم بیان کیا ہے اور یہ الفاظ بعینہ (حمامتہ البشریٰ ص۲۴) کے حاشیہ کی چوتھی اور پانچویں سطر میں موجود ہیں۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ قاضی صاحب نے یہ کیوں کہا کہ حافظ صاحب کے پیش کردہ حوالہ کے الفاظ یا ان کا مفہوم (ص۲۴،۴۰) پر موجود نہیں۔