قاضی صاحب
ہاں یہ تو فرمائیے! آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ڈپٹی کمشنر کے کارندوں نے اس کی لاعلمی میں دستخط لے لئے تھے اور ڈپٹی کمشنر کو اپنی غلطی کا احساس کب ہوا تھا۔ مرزاقادیانی کے پاس حکم پہنچنے سے پہلے یا بعد؟ اور جاری کردہ حکم منسوخ کس بناء پر ہوا؟ ہاں یہ بھی بتائیے کہ مرزاقادیانی حکم سرزد ہونے کی نفی کرتے ہیں اور آپ حکم کا اجراء تسلیم کرتے ہیں۔ صرف نافذ ہونے سے انکاری ہیں۔ آخر یہ اختلاف کیوں؟
کس کا یقین کیجئے کس کا یقین نہ کیجئے
لائے ہیں ان کی بزم سے یار خبر الگ الگ
فیصلہ کن شہادت
اس بحث کے آخر میں ہم قادیانی لٹریچر سے ایک فیصلہ کن شہادت درج کرتے ہیں۔ جس سے مرزاقادیانی کی کذب بیانی اور مرزائی مجیب کی پیرا پھیری روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گی۔ یہ شہادت سید میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی کی ہے۔ جنہوں نے آٹھویں نمبر پر مرزاقادیانی کی بیعت کی تھی۔
میر صاحب موصوف موقعہ کی شہادت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’محرم بھی قریب تھا پولیس کپتان اور ڈپٹی کمشنر لدھیانہ نے باہمی تجویز کی کہ ایسا نہ ہو کہ اس مباحثہ کے نتیجہ میں فساد ہو جائے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مولوی محمد حسین بٹالوی کو لدھیانہ سے رخصت کرنے کے لئے ڈپٹی دلاور علی صاحب اور کرم بخش صاحب تھانیدار مقرر کئے گئے۔ پہلے وہ مولوی محمد حسین صاحب کے پاس گئے اور انہیں اسٹیشن پر روانہ کر آئے۔ پھر وہ حضور کے پاس آئے اور آکر ادب سے باہر کھڑے رہے۔ پہلے اطلاع کے لئے ایک سپاہی بھیجا۔ اس وقت حضرت صاحب کے پاس حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی، غلام قادر صاحب فصیح سیالکوٹی، میر عباس علی شاہ صاحب اور یہ خاکسار بیٹھے تھے۔ جب سپاہی نے اطلاع دی کہ ڈپٹی دلاور علی صاحب باہر کھڑے ہیں اور حضور سے تخلیہ (تنہائی) میں کچھ کہنا چاہتے ہیں تو حضور نے ہم خدام کو باہر چلے جانے کے لئے فرمایا اور سرکاری نمائندوں کو اندر بلایا۔ وہ ۳۰منٹ کے قریب اندر رہے۔ پھر باہر آئے اور ہم اندر چلے گئے۔ دریافت کرنے پر حضور نے ڈپٹی کمشنر کا پیغام سنایا اور بتایا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کو رخصت کر آئے ہیں اور مجھے بھی پیغام دیا ہے۔ میں نے کہہ دیا ہے بہت اچھا ہمارا لدھیانہ میں کیا رکھا ہے۔ چلے جائیں گے۔ لیکن سردست ہم سفر نہیں کر سکتے۔ ہمارے