یہ چٹھی اپنے مضمون میں بالکل واضح ہے کہ مرزاقادیانی کو اخراج کا حکم ہوا تھا۔ اگر ایڈیٹر صاحب کو اب بھی کوئی شک ہے تو ان کا فرض ہے کہ ’’حضرت اقدس‘‘ کی وہ چٹھی شائع کریں جس کا ذکر ڈپٹی کمشنر کی چٹھی میں کیاگیا ہے۔ اس کی اشاعت سے صاف معلوم ہو جائے گا کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ؎
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
قادیانی جماعت پر بے اعتباری
میرے اس فقرہ پر کہ: ’’ہم قادیانی لٹریچر سے ثابت کر سکتے ہیں کہ مرزاقادیانی کو لدھیانہ چھوڑنے کا باقاعدہ حکم ہوا تھا۔‘‘ ایڈیٹر صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’قادیانی لٹریچر سے اگر جماعت ربوہ کی کوئی تحریر مراد ہے تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں۔‘‘ (حوالہ مذکور)
قادیانی دوستو! کیا تم واقعی غیر ذمہ دار ہو؟
لاہوری دوستو! اپنے ایڈیٹر کو روکو کہ وہ مرزاقادیانی کے قادیانی صحابہ کے حق میں غیرذمہ داری کا فتویٰ نہ دے۔ کہیں اس کی زد میں آپ بھی نہ آجائیں۔ آخر آپ کا خمیر بھی تو وہیں سے اٹھا ہے ؎
گوواں نہیں پرواں سے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
قادیانی مجیب
قادیانی مجیب ڈپٹی کمشنر کی چٹھی نقل نہ کرنے میں تو بڑی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے میرے الزام کے متعلق فرماتے ہیں کہ: ’’اصل حقیقت جس کو حافظ صاحب چھپارہے ہیں۔ صرف یہ ہے کہ انگریز ڈپٹی کمشنر نیا نیا آیا تھا۔ اس کے کارندوں نے مولوی محمد حسین صاحب کی طرح حضرت اقدس کو بھی ایک مولوی ظاہر کر کے دونوں کے اخراج کے حکم پر دستخط لے لئے۔ ڈپٹی کمشنر کو جب اپنی غلطی کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے کارندوں کو سخت ملامت کی اور حضرت اقدس کے متعلق جو حکم تھا… منسوخ کردیا اور وہ حکم نافذ نہ ہوا۔‘‘ (رسالہ مذکور ص۲۷)
ہم حیران ہیں کہ قاضی صاحب نے ہمارے اعتراض کی تردید کی ہے یا تائید؟ اور مرزاقادیانی سے الزام دور کیا ہے یا ہمارے بیان پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
ہوئے تم دوست جس کے اس کا دشمن آسماں کیوں ہو