اس کشمکش دام سے کیا کام تھا مجھے
اے الفت چمن تیرا خانہ خراب ہو
قاضی صاحب! ہم آپ سے انصاف اور دیانت کے نام پر اپیل کرتے ہیں کہ کتاب رسولوں کے اعمال کو ایک بار پھر دیکھئے اور خدا کو حاضر ناظر جان کر بتائیے۔ کیا اس عبارت میں آخری دنوں سے مراد مسیح موعود (مرزاقادیانی) کا زمانہ ہے؟ اور کیا ان الفاظ میں کسی آئندہ زمانہ کے لئے پیش گوئی کی گئی ہے۔ یا کسی گذرے ہوئے واقعہ کو بطور تاریخ بیان کیا گیا ہے۔ مرزائی دوستو! ہم آپ کی آسانی کے لئے کتاب ’’رسولوں کے اعمال‘‘ سے یہ سارا واقعہ درج کرتے ہیں۔ تاکہ آپ اصل حقیقت سے آگاہ ہو سکیں۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد: ’’جب عید پنتکست کا دن آیا۔ وہ سب (مسیح کے ۱۲شاگرد) ایک جگہ جمع تھے کہ یکایک آسمان سے ایسی آواز آئی۔ جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے اور اس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج گیا اور انہیں آگ کے شعلے کی سی پٹھتی ہوئی زبانیں دکھائی دیں اور ان میں سے ہر ایک پر آٹھہریں اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں بولنے لگے۔ جس طرح روح نے انہیں بولنے کی طاقت بخشی۔ اس کے بعدا س واقعہ کی تفصیلات لکھی ہیں کہ اس موقعہ پر بہت تماشائی اکٹھے ہوگئے اور مسیح کے شاگردوں کو غیر زبانوں میں کلام کرتے دیکھ کر کہنے لگے کہ یہ شراب کے نشے میں ہیں۔‘‘
لیکن پطرس حواری اپنی آواز بلند کر کے لوگوں سے کہنے لگا کہ اے یہودیو اور اے یروشلیم کے سب رہنے والو! یہ جان لو اور کان لگا کر میری بات سنو کہ جیسا تم سمجھتے ہو یہ نشہ میں نہیں۔ بلکہ یہ وہ بات ہے جو یوئیل نبی کی معرفت کہی گئی ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ: ’’آخری دنوں میں ایسا ہوگا کہ میں اپنے روح میں سے ہر بشر پر ڈالوں گا اور تمہارے بیٹے اور بیٹیاں نبوت کریں گے اور تمہارے جوان رویا اور بڈھے خواب دیکھیں گے۔‘‘
مرزائی دوستو! غور کیجئے کہ یہ واقعہ حضرت مسیح کے بعد ان کے ۱۲شاگردوں کو پیش آیا اور پطرس حواری نے اس عہد قدیم کے یوایل نبی کی مندرجہ بالا پیش گوئی کا مصداق ٹھہرایا۔ لیکن اپنے قاضی صاحب کی دیانت دیکھئے کہ وہ اسے قیامت کے قریب (مسیح موعود کے زمانہ) کے لئے پیش گوئی قرار دے کر ہمارے اعتراض کا جواب دے رہے ہیں اور کمال یہ کہ اسے میری بے علمی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ایمان سے کہو یہ میری بے علمی ہے یا قاضی صاحب کا فریب؟ سچ ہے ؎