کے نقطہ نگاہ سے نہ سہی لیکن فی الحقیقت صحیح ہوں۔ اس قسم کی احادیث کئی غیر معروف کتابوں، سیرتوں اور تفاسیر وغیرہ میں پائی جاتی ہیں۔ مرزاقادیانی نے اگر یہ حدیث کسی ایسی کتاب میں دیکھی ہو جو بدو ملہوی ملا کے علم میں نہ آئی ہو تو اس کو افتراء کہنا اپنی علمی فرومائیگی کا ثبوت دینا ہے۔‘‘
(پیغام صلح ص۳، مورخہ ۱۴؍مئی)
ناظرین! ایڈیٹر صاحب غالباً بھول گئے ہیں کہ وہ مرزاقادیانی کے مریدوں کو وعظ نہیں کر رہے۔ بلکہ ان کے مخالف اور معترض کو جواب دے رہے ہیں۔ میدان مناظرہ میں یہ کہنا کہ حضرت صاحب نے کہیں دیکھی ہوگی۔ اعتراف شکست نہیں تو اور کیا ہے؟
سنبھل کر قدم رکھنا میکدہ میں مولوی صاحب
یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں
قادیانی مجیب
اسی اعتراض کے جواب میں فرماتے ہیںکہ: ’’افسوس ہے کہ حافظ صاحب کو نہ تو نبیوں کی کتابوں کا کچھ علم ہے اور نہ ہی حدیث کا پورا علم ہے۔ ورنہ ایک چھوڑ تین حدیثیں انہیں اس مضمون کی مل جاتیں۔‘‘ (رسالہ ص۱۹)
ہم حیران ہیں کہ لاہوری مجیب کو ان تین احادیث سے ایک بھی نظر نہ آئی اور اس بیچارے کو بالآخر یہی کہنا پڑا کہ: ’’شاید یہ حدیث مرزاقادیانی نے کہیں دیکھی ہو۔‘‘
اس کے بعد قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت اقدس نے اس جگہ یہ مضمون نبیوں کی کتابوں اور احادیث نبویہ کے مشترک مفہوم کی صورت میں پیش فرمایا ہے۔‘‘ چنانچہ رسولوں کے اعمال میں ہے کہ خدافرماتا ہے کہ آخری دنوں میں ایسا ہوگا کہ میں اپنی روح میں سے ہر فرد بشر پر ڈالوں گا اور تمہارے بیٹے اور بیٹیاں نبوت کریں گی۔
اس کے بعد قاضی صاحب نے صحیح بخاری سے اس مضمون کی ایک حدیث نقل کی ہے کہ قیامت کے قریب مؤمن کی خوابیں سچی ہوں گی اور مؤمن کی (سچی) خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ (رسالہ ص۲۰)
نوٹ: دوسری دو حدثیں بھی اسی مضمون کی ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ قاضی جی کی نسبت غلط بیانی کا خیال کریں یا بددیانتی کا۔ آخر خیال آیا کہ یہ ہیرا پھیری ان کی مجبوری کا دوسرا نام ہے۔ ہر وہ شخص جو مرزاقادیانی کی وکالت کرے گا۔ اسے جھوٹ کو سچ کرنے کے لئے بیسیوں حرکات شینعہ کا ارکاب کرنا پڑے گا۔ جس پر یہ کہنا بجا ہو گا ؎