آتا اور مرزاقادیانی پر جھوٹ کا الزام تسلیم کرنے سے ملازمت کا خطرہ ہے۔ اسی پریشانی کے عالم میں وہ ریاست بھوپال کے سابق نواب صدیق حسن خاںؒ کی کتاب حجج الکرامۃ سے ایک عبارت (جس میں نواب صاحب امام مہدی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مقلد اور لکیر کے فقیر علماء امام مہدی کو کافر اور گمراہ کہیں گے) نقل کرنے کے بعد مجھ سے دریافت کرتے ہیں۔ ’’کیوں اب تسلی ہوئی؟‘‘ (پیغام صلح ص۶، مورخہ ۳۰؍اپریل۱۹۵۸ئ)
ایڈیٹر صاحب! غور سے سنئے۔ مجھے آپ کے اس جواب سے پورا اطمینان ہوگیا ہے کہ مرزاقادیانی نے واقعی جھوٹ بولا ہے اور آپ میں حق بات تسلیم کرنے کی جرأت نہیں۔
محترمی! مرزاقادیانی نے تو احادیث صحیحہ کا حوالہ دیا ہے اور میرا مطالبہ بھی یہی ہے کہ احادیث صحیحہ میں یہ مضمون دکھایا جائے یا مرزاقادیانی کے غلط گو ہونے کا اقرار کیا جائے۔ لیکن آپ کس قدر سادہ لوح ہیں کہ احادیث صحیحہ کی بجائے نواب بھوپال کی عبارت پیش کرتے ہیں۔ کیا نواب بھوپال کی تحریریں حدیث رسول کا درجہ رکھتی ہیں؟ اور کیا ان کی عبارت پیش کرنے سے میرا مطالبہ پورا ہوگیا؟ اور مرزاقادیانی سے جھوٹ کا الزام دور ہوگیا؟
ناظرین! ایڈیٹر صاحب کی بدحواسی ملاحظہ کیجئے۔ فرماتے ہیں کہ حج الکرامہ کے مصنف (نواب بھوپال) کو آخر کوئی الہام تو نہیں ہوا کہ ایسا ہوگا۔ اس نے (آخر کسی) حدیث اور آثار سے ہی یہ اطلاع حاصل کی ہے۔ سچ ہے کہ دل کا چور چھپا نہیں رہتا۔
ایڈیٹر صاحب نے مجھے مخاطب کر کے لکھا ہے کہ: ’’اگر جرأت ہے تو نواب صدیق حسن خاں اور ان تمام چھوٹے بڑے علماء کو جھوٹا قرار دو جنہوں نے یہ لکھا ہے۔‘‘
محترمی! فی الحال آپ جرأت کر کے مرزاقادیانی کو جھوٹا تسلیم کیجئے۔ جن کا احادیث صحیحہ کی طرف منسوبہ مضمون آپ ثابت نہیں کر سکے۔ باقی رہا نواب صاحب اور دیگر علماء کا معاملہ تو ان کو جھوٹا قرار دینے سے قبل یہ ثابت کیجئے کہ انہوں نے اس مقام پر کسی حدیث کا حوالہ دیا ہے؟ایڈیٹر پیغام صلح کا جھوٹ
مرزاقادیانی سے جھوٹ کا الزام دور کرتے ہوئے خود ایڈیٹر صاحب نے بھی مجدد صاحب سرہندی پر ایک جھوٹ باندھا ہے۔ تفصیل ملاحظہ فرمائیے۔ ایڈیٹر صاحب نے مجدد صاحب سرہندی کی ایک عبارت معہ ترجمہ اپنے مضمون کے شروع میں بایں الفاظ نقل کی ہے کہ: ’’نزدیک است کہ علماء ظواہر مجتہدات اواز کمال وقت غموض ماخذ انکار نمایند ومخالف کتاب وسنت دانند‘‘ یعنی قریب ہے کہ ظاہری علم رکھنے والے علماء حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اجتہادی باتوں کا ان