حوالہ نہیں، بنیاد
قادیانی دوستو! کسی عالم کا کسی حدیث کے متعلق بخاری کا محض حوالہ دے دینا اور بات ہے اور مرزاقادیانی کی طرح بخاری پر مسئلہ کی بنیاد رکھنا اور بات ہے۔ مرزاقادیانی نے صرف بخاری کا حوالہ ہی نہیں دیا۔ بلکہ بخاری کو اپنی دلیل کی بنیاد قرار دے کر دوسری حدیثوں کو ناقابل اعتبار ٹھہرایا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ علامہ عنایت اﷲ خاں مشرقی کے والد منشی عطاء محمد مرحوم نے مرزاقادیانی پر اعتراض کیا کہ آنحضرتﷺ نے اپنے بعد خلافت کی مدت صرف تیس سال بتائی ہے تو پھر آپ اپنے آپ کو خلیفہ کس بنا پر کہتے ہیں؟
مرزاقادیانی منشی صاحب کے جواب میں فرماتے ہیں کہ: ’’اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہئے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں۔ مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے۔ خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لئے آواز آئے گی کہ ’’ہذا خلیفۃ اﷲ المہدی‘‘ اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اﷲ میں ہے۔‘‘
مرزائی دوستو!ذرا غور کرو۔ مرزاقادیانی نے بخاری پر اپنی دلیل کی بنیاد رکھی ہے اور بخاری کے نام سے فائدہ اٹھا کر مخالف کی دلیل کو رد کیا ہے۔ اب اس حدیث کے بخاری میں نہ ہونے سے مرزاقادیانی کا جھوٹ ہی ثابت نہ ہوگا۔ بلکہ ان کی دلیل بھی باطل ٹھہرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مرزاقادیانی اس کتاب کی اشاعت کے بعد ۱۶سال زندہ رہے۔ لیکن نہ تو آپ نے خود اس کی اصلاح کی اور نہ ہی کسی قادیانی عالم نے اس کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی۔ کیونکہ اس کی اصلاح سے مرزاقادیانی کی پیش کردہ دلیل باطل ٹھہرتی تھی۔
دورخی
ناظرین! مرزائی جماعت کی دورخی ملاحظہ فرمائیے۔ جب منشی عطا محمد صاحب نے مرزاقادیانی کی خلافت پر احادیث سے اعتراض کیا تو بخاری کی دھونس جما کر ان کی پیش کردہ احادیث کو باطل ٹھہرایا اور جب ہم نے بخاری میں اس حدیث کے نہ ہونے کی بناء پر جھوٹ کا الزام قائم کیا تو ہمارے سامنے سہو اور سبقت قلم کا بہانہ کر دیا۔ سچ ہے ؎
عجیب مشکل میں آیا سینے والا جیب وداماں کا
جو یہ ٹانکا تو وہ ادھڑا جو وہ ٹانکا تو یہ ادھڑا