اﷲ اکبر! سبقت بھی دست مرزا کی نہیں قلم مرزا کی کسی عاشق نے کیا خوب کہا ہے ؎
مجھے قتل کر کے وہ بھولا سا قاتل
لگا کہنے کس کا یہ تازہ لہو ہے
کسی نے کہا جس کا وہ سر پڑا ہے
کہا بھول جانے کی کیا میری خو ہے
اس اعتراف کے بعد دونوں مجیب رقم طراز ہیں کہ مرزاقادیانی کا یہ سہوایسا ہی ہے۔ جیسا بعض دوسرے دوتین علماء نے اپنی کتابوں میں سہواً بخاری کا حوالہ دیا ہے۔ پھر دونوں حضرات مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ ان بزرگوں کو بھی جھوٹا قرار دیں گے؟
مرزاقادیانی کی پوزیشن
ہماری طرف سے ہر دو حضرات کو معلوم ہونا چاہئے کہ مرزاقادیانی اور ان علماء کی پوزیشن میں آپ کے اعتقاد کے مطابق زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ان علماء میں کوئی بھی نبی اﷲ، مجدد، مہدی اور مسیح موعود نہیں تھا اور ان میں سے کسی کا دعویٰ نہیں تھا کہ: ’’میری روح فرشتوں کی گود میں پرورش پاتی ہے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۸ ص۶۵، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۵۵)
اور ان میں کسی کی یہ پوزیشن نہیں تھی کہ: ’’روح القدس کی قدسیت ہر دم اور ہر وقت اور ہر لحظہ بلا فصل ملہم کے تمام قویٰ میں کام کرتی ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۹۳، خزائن ج۵ ص۹۳)
اور ان میں سے کسی کو بھی یہ الہام نہ ہوا تھا کہ: ’’وما ینطق عن الہویٰ ان ھوا الا وحی یوحیٰ‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۱۹ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۳۶۱)
پس مامور اور غیرمامور میں مقابلہ کیسا؟
قابل غور
دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ ان علماء کے زمانہ میں پریس وغیرہ کا کوئی انتظام نہ تھا۔ شاگرد اور عقیدت مند مسودہ سے نقل کر لیتے تھے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا اور طباعت کا مرحلہ ان بزرگوں کی وفات کے سینکڑوں برس بعد پیش آیا۔ اگرچہ اس نقل میں ہر انسانی احتیاط ملحوظ رکھی جاتی تھی۔ تاہم ایک آدھ لفظ کی کمی بیشی معمولی بات ہے۔ لیکن مرزاقادیانی کا معاملہ ان حضرات سے قطعی مختلف ہے۔ کیونکہ آپ کا زمانہ پریس کا زمانہ تھا اور تمام کتابیں ان کی زیرنگرانی طبع ہوتی تھیں اور مرزاقادیانی کے ہاں پروف کی تصحیح اور نظر ثانی کا اہتمام بھی معقول تھا۔ پس ان حالات میں سہواً اور سبقت قلم کا عذر یکسر باطل ہے۔