صدیق اور تلوار حیدر ہے۔ نیز تحفظ ختم نبوت کا ادنیٰ تقاضا یہ ہے کہ مملکت کے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں اور اسلام کی وہ تلوار جو کفر کو سرنگوں کرنے کے لئے حرکت میں آتی ہے وہ بلاتوقف اور بلاجھجک مدعی نبوت اور اس کے پیروکاروں کے سرقلم کرنے کے لئے لہرادی جائے اور ان کو شکت دینے کے بعد ان کے قیدیوں سے وہی سلوک کیا جائے جو اسلامی مملکت شکست خوردہ کفار اور ان کے قیدیوں سے روا رکھتی ہے۔
حضرات گرامی: آنحضرتﷺ کے بعد ایک مدعی نبوت کے ساتھ اسلامی حکومت بلکہ خلیفہ راشد کا یہ اقدام تمام ملت اسلامیہ کے لئے نہ صرف قابل تقلید بلکہ واجب التقلید تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری ۱۴۰۰سالہ تاریخ میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں بھی کسی سرپھرے نے دعویٰ نبوت کی جسارت کی۔ وقت کی اسلامی حکومت نے سنت صدیقی کو دہرایا اور جب بھی اس عمل کو دہرایا گیا۔ کسی بھی طرف سے اس پر نہ احتجاج ہوا اور نہ ہی کسی نام نہاد مہذب حلقے سے یہ آواز اٹھی کہ یہ اقدام رجعت پسندی، تنگ نظری اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ بلکہ ہر زمانے میں پوری ملت نے مدعی نبوت کے قتل کو سراہا اور حکومت کے اس اقدام کی پورے جوش وخروش سے حمایت کی کہ اس نے اپنے اس اقدام سے عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ کیا اور ملت اسلامیہ کو انتشار سے بچا لیا ہے۔
حضور والا: خلیفہ اوّل حضرت صدیق اکبرؓ کا یہ اقدام جس میں انہیں تمام صحابہ کرامؓ کی عملی تائید اور جناب علی مرتضیٰؓ کا پورا تعاون حاصل تھا۔ ملت اسلامیہ کو حیات جاوداں کا درس دے گیا۔ اسی متفقہ اقدام کا نتیجہ ہے کہ آج تک کروڑوں فرزندان اسلام اسی عقیدہ میں اپنی نجات سمجھتے ہیں اور اس کے تحفظ کے لئے سردھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہیں اور اسی عقیدہ کا اعجاز سمجھئے کہ شیعہ، سنی شدید باہمی اختلاف کے باوجود اور مسلمانوں کے دوسرے فرقے صدہا مسائل میں مختلف الرائے ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں بلکہ اپنے باہمی اختلافات کا فیصلہ بھی آنحضرتﷺ کے ارشادات ہی میں تلاش کرتے ہیں۔ ان کے مابین امامت اور خلافت کے اختلافات توہیں۔ لیکن ان تمام فرقوں کا اس بات پر ایمان ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت اور اس کے پیروکار دائرہ اسلام سے خارج اور ملت اسلامیہ کے جسد میں ایک خطرناک قسم کا ناسور ہیں۔
حضرات گرامی: تاریخ شاہد ہے کہ کبھی کسی معقول اور ہوش مند آدمی نے دعویٰ نبوت کی جسارت نہیں کی اور اگر کبھی ایسا ہوا تو نہ ملت نے اسے برداشت کیا اور نہ ہی مملکت نے۔ میری رائے میں یہ مسئلہ ان مسائل میں سرفہرست ہے۔ جنہیں عوام اور حکومت نے مل کر طے کیا اور اس