۳… ڈاکٹر صاحب نے مرزائیت کے زمانہ میں ایک تفسیر قرآن لکھی تھی۔ مرزاقادیانی اس تفسیر کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ: ’’ڈاکٹر صاحب کی تفسیر القرآن بالقرآن ایک بے نظیر تفسیر ہے۔ جس کو ڈاکٹر صاحب عبدالحکیم خان بی۔اے نے کمال محنت کے ساتھ تصنیف فرمایا ہے۔ نہایت عمدہ شیریں بیان اس میں قرآنی نکات خوب بیان کئے گئے ہیں۔ یہ تفسیر دلوں پر اثر کرنے والی ہے۔‘‘ (اخبار بدر قادیان مورخہ ۹؍اکتوبر ۱۹۰۳ئ)
بقول مرزاقادیانی ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں خداتعالیٰ کو خدمت اسلام لینا منظور تھا۔ اس لئے ۲۰سال مرزائیت میں ضائع کرنے کے بعد بالآخر توبہ کی توفیق ملی اور وہ مرزاقادیانی سے علیحدہ ہوگئے۔ بس پھر کیا تھا۔ مرزاقادیانی نے اپنی تمام سابقہ تحریرات کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کی مذمت شروع کر دی کہ ایسا ہے، ویسا ہے۔ یہ ہے، وہ ہے۔ گنجا ہے، کانا ہے وغیرہ وغیرہ۔
حتیٰ کہ ڈاکٹر صاحب کی اسی تفسیر کے متعلق جس کی تعریف مرزاقادیانی کے الفاظ میں آپ ابھی پڑھ آئے ہیں۔ ارشاد فرمادیا کہ: ’’ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب کا اگر تقویٰ صحیح ہوتا تو وہ کبھی تفسیر لکھنے کا نام نہ لیتا۔ کیونکہ وہ اس کا اہل ہی نہیں تھا۔ اس کی تفسیر میں ذرہ بھر روحانیت نہیں اور نہ ہی ظاہری علم کا کچھ حصہ۔‘‘ (اخبار بدر مورخہ ۷؍جون۱۹۰۶ئ)
ناظرین! مرزاقادیانی کی راست گفتاری ملاحظہ فرمائیے کہ جب تک ڈاکٹر صاحب مرزائی رہے وہ جوان صالح تھے اور علامات رشد وسعادت ان کے چہرہ سے نمایاں تھیں اور وہ زیرک اور فہیم آدمی تھے اور خدمات اسلام کے اہل تھے۔ خصلت صدق وصفا رکھتے تھے اور ان کی تفسیر بے نظیر تھی۔ نہایت عمدہ شیریں بیان اور نکات قرآنی کا مجموعہ اور دلوں پر اثر کرنے والی تھی۔ لیکن یہ کیا غضب ہوا کہ مرزاقادیانی سے علیحدہ ہوتے ہی نہ صرف ڈاکٹر صاحب کا تقویٰ اور اخلاص نیز جو ہر صدق وصفا ہی جاتا رہا۔ بلکہ تفسیر بھی نکمی فضول روحانیت سے خالی اور ظاہری علم سے بے بہرہ ہوگئی۔
مرزائی دوستو! یہ کیا معمہ ہے؟ تعریف وتنقیص معلوم کرنے کے بعد مرزاقادیانی کا ایک اور بیان بھی ملاحظہ فرمائیے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے اس تفسیر کو پڑھا ہی نہیں۔
مرزائیو! کیا اب بھی تمہیں مرزاقادیانی کے دجل وفریب میں کوئی شبہ ہے؟ جب تفسیر پڑھی ہی نہیں تو مدح ومذمت کیسی؟