اگرچہ اس عبارت سے چند سطریں پہلے مرزاقادیانی نے احتیاطاً یہ لفظ بھی تحریر فرمائے ہیں کہ قادیان طاعون کی تباہی سے محفوظ رہے گا۔ مگر اس عبارت کا مطلب صاف ہے کہ قادیان نہ صرف یہ کہ خود طاعون سے پاک ہے۔ بلکہ باہر سے آنے والا طاعون زدہ بھی اچھا ہو جاتا ہے۔ بایں ہمہ لفظ تباہی کا ذکر کرنا محض مصلحتاً تھا۔ یعنی اگر کوئی واردات ہو جائے تب بھی کوئی اعتراض نہ آئے ؎
بات وہ کر کہ جس بات کے سو پہلو ہوں
کوئی پہلو تو رہے بات بدلنے کے لئے
ہم الہام مذکورہ کی حقیقت اور اہمیت منکشف کرنے کے لئے مرزاقادیانی کے امام نماز اور فرشتہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کا ایک مفصل مضمون درج کرتے ہیں۔ جو انہی دنوں اخبار الحکم ۹؍اپریل ۱۹۰۲ء میں مرزاقادیانی کی موجودگی میں شائع ہوا تھا جو اصولاً مرزاقادیانی کے اپنے مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ نبی کی موجودگی میں کسی امتی کو حق نہیں کہ وہ اس کے متحد یانہ الہام کی تفصیل ازخود کرے اور اگر کوئی نادان امتی یہ حرکت کر بھی بیٹھے تو نبی جی کا پہلا فرض ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں فوراً تردیدی اعلان جاری کرے۔ الفاظ دیگر نبی کا ایسے موقعہ پر خاموش رہنا امتی کے قول وفعل کی تصدیق کے مترادف ہے اور اصول حدیث میں اس قسم کے قول وفعل کو بھی حدیث نبوی تسلیم کیا جاتا ہے۔ بہرحال آپ امام مرزا بلکہ فرشتہ مرزا کا مضمون غور سے پڑھئے۔
پیسہ اخبار اور لاہور، مسیح موعود علیہ السلام اور قادیان دارالامان پیسہ اخبار لاہور نے لکھا تھا کہ جب لاہور بھی طاعون سے محفوظ ہے تو قادیان کی کیا خوبی ہوئی۔
امام صاحب اس کا جواب تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’پیسہ اخبار کی یہ امید یا پیش گوئی اور یہ نتیجہ خوفناک حملے ہیں۔ خدائے غیور کی اس عظیم الشان وحی پر جو کئی دفعہ اخبار الحکم میں شائع ہوچکی ہے۔ ’’انہ آوی القریۃ‘‘ یعنی یہ بات یقینی ہے کہ خدا نے اس گاؤں (قادیان) کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے اور اس وحی پر کہ ’’لولا الاکرام لہلک المقام‘‘ یعنی اس سلسلہ احمدیہ کا پاس اور اکرام اگر خداتعالیٰ کو نہ ہوتا تو یہ مقام بھی ہلاک ہو جاتا۔ اب سننے والے سنیں اور دیکھنے والے دیکھیں کہ خدا کا مامور اور مرسل جری اور مسیح موعود خود خدائے حکیم وعلیم کی وحی کی بنا پر ساری دنیا کے طبیبوں ڈاکٹروں اور فلسفیوں کو کھول کر سناتا ہے کہ قادیان یقینا اس پراگندگی تفرقہ جزع فزع اور موت الکاب اور تباہی سے محفوظ رہے گا اور بالضرور محفوظ رہے گا۔ جس میں