۱۳…
عبدالحق غزنوی کی بیوی کے پیٹ سے لڑکا تو کجا چوہا بھی برآمد نہیں ہوا۔
(انجام آتھم ص۳۰۱، خزائن ج۱۱ ص۳۱۷)
۱۴…
مولوی صاحب موصوف نے اپنی بیوہ بھاوجہ سے نکاح کیا تو مرزاقادیانی اس واقعہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ بھائی مرا تو اس کی بوڑھی عورت پر قبضہ کر لیا۔
(انجام آتھم ص۳۳۰، خزائن ج۱۱ ص۳۳۹،۳۴۴)
۱۵…
مولوی صاحب موصوف کی تقریر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کنجری کی طرح ناچ اور گدھے کی طرح بول رہا ہے۔ (حجتہ اﷲ ص۹۴، خزائن ج۱۲ ص۲۴۳،۲۴۴)
ناظرین غور فرمائیے! اس قسم کی زبان استعمال کرنے والا نبی، مہدی، مسیح، مجدد وغیرہ تو کجا کیا شریف اور بااخلاق انسان کہلانے کا مستحق بھی ہے؟ کیا جو لوگ دنیا کی ہدایت کے لئے آتے ہیں وہ اس قسم کی زبان استعمال کیا کرتے ہیں؟ کیا دشمنوں کے حق میں ایسے الفاظ تحریر کرنا ان کی دشمنی میں اضافہ نہ کرے گا؟ اور کیا اس قسم کے الفاظ مخالفین میں اشتعال پیدا نہ کریں گے؟ اور کیا اس قسم کی تحریریں نقص امن کا موجب نہ بنیں گی؟
نقل حکم مسٹر ڈگلس صاحب مورخہ ۲۳؍اگست ۱۸۹۷ء
یہی وجہ ہے کہ مرزاقادیانی کی اس قسم کی بدزبانی اور بدتہذیبی کے پیش نظر آپ کو عدالت کی طرف سے تنبیہ بھی ہوئی تھی۔ عدالتی الفاظ ملاحظہ فرمائیے۔
’’مرزاقادیانی کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ جو تحریرات عدالت میں پیش کی گئی ہیں۔ ان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ فتنہ انگیز ہے۔ ان کی تحریرات اس قسم کی ہیں کہ انہوں نے بلاشبہ طبائع کو مشتعل کر رکھا ہے۔ پس ان کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی تحریرات میں مناسب اور ملائم الفاظ استعمال کریں۔ وگرنہ بحیثیت مجسٹریٹ ضلع ہم کو مزید کاروائی کرنی پڑی گی۔‘‘
(روئیداد مقدمہ ص۴۴، محمدیہ پاکٹ بک ص۲۱۶)
مرزاقادیانی اس عدالتی حکم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’ہم نے عدالت کے سامنے یہ عہد کر لیا ہے کہ آئندہ ہم سخت الفاظ سے کام نہ لیں گے۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۳، خزائن ج۱۳ ص۱۵)
اس عبارت میں مرزاقادیانی اپنی سخت گوئی کا اقرار کرتے ہوئے آئندہ کے لئے احتراز کا وعدہ کرتے ہیں۔ مگر افسوس کہ اس تنبیہ اور وعدہ کے باوجود مرزاقادیانی نے اپنے رویہ میں کوئی اصلاح نہ کی۔ بالآخر اکتوبر ۱۹۰۴ء کو عدالت کو دوبارہ نوٹس لینا پڑا۔ عدالتی فیصلہ ملاحظہ