مرزاقادیانی کا خیال تھا کہ پیر صاحب نہایت قلیل الفرصت اور گوشۂ نشین بزرگ ہیں اور ذکر الٰہی ان کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ وہ مقابلہ میں نہیں آئیں گے اور مفت کی مالی مل جائے گی۔ (یعنی رقم حاصل ہو جائے گی) لیکن پیر نے اس چیلنج کو سچ مچ تسلیم کر لیا اور بذریعہ اشتہار اعلان کر دیا کہ مجھے آپ کی تمام شرائط منظور ہیں۔ برائے مہربانی میری ایک تجویز منظور فرمائیے۔ تفسیر نویسی سے پہلے آپ اپنی مسیحیت کے دلائل پیش کیجئے اور میں ان کی تردید کروں گا۔ اگر مقرر شدہ ثالثوں نے فیصلہ کر دیا کہ آپ کے دلائل غلط اور اثبات مدعا کے لئے ناکافی ہیں تو آپ کو اسی وقت تمام دعاوی سے دستبردار ہوکر میری بیعت کرنی ہوگی۔ بصورت عدم فیصلہ تفسیر نویسی ہوگی۔ میں لاہور اور امرتسر کے علماء کو ساتھ لے کر ۲۵؍اگست ۱۹۰۰ء کو شاہی مسجد لاہور پہنچ جاؤں گا۔
پیر صاحب حسب اعلان ۲۵؍اگست کو علماء کی جمعیت میں لاہور پہنچ گئے۔ مگر افسوس کہ مرزاقادیانی کو لاہور آنے کی جرأت نہ ہوئی اور انہوں نے اپنی غیرحاضری سے اپنے آپ کو وہی کچھ ثابت کر دیا جس کا کر اپنے اشتہار ۲۰؍جولائی میں کر چکے تھے۔
آخر پیر صاحب ۲۹؍اگست کو واپس آگئے۔ اس کے بعد مرزاقادیانی نے ایک اشتہار شائع کیا کہ: ’’پیر صاحب نے میری شرائط کو تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ اپنی طرف سے فضول شرائط لگادیں۔ نیز فرمایا کہ میں لاہور میں کیسے جاسکتا تھا۔ میرے مرید تو سارے لاہور میں صرف ۱۵،۱۶ہیں اور پیر صاحب اپنے ساتھ سرحدی پٹھان لائے تھے۔ مجھے خطرہ تھا کہ قتل نہ کر دیا جاؤں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۳۹،۱۴۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۵۳)
ناظرین! مرزاقادیانی کا ۲۰؍جولائی والا اشتہار ایک طرف اور یہ اشتہار دوسری طرف رکھئے اور غور فرمائیے کہ ؎
کجا آں شورا شوریٰ وکجا ایں بے نمکی
مرزائی دوستو! اگر مرزاقادیانی کے لاہور میں واقعی ۱۵،۱۶ مرید تھے تو پہلے انہیں کس حکیم نے کہا تھا کہ مقام مباحثہ ضرور لاہور ہونا چاہئے اور اگر جان کا خطرہ تھا تو پولیس کا انتظام کر لیتے۔ جس کا ذکر بھی پہلے کر چکے تھے۔ ہاں ہم بھول گئے۔ مرزاقادیانی کا تو الہام تھا کہ ’’واﷲ یعصمک من الناس‘‘ یعنی تجھے خدا لوگوں سے بچائے گا کیا انہیں اپنے الہام پر یقین نہیں تھا۔ وہ تو فرماتے ہیں کہ میں اپنے الہام کو قرآن کی طرح یقینی سمجھتا ہوں۔
(تبلیغ رسالت ج۸ ص۶۴، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۵۴)
ناظرین! یہ ہے مرزاقادیانی کی قرآنی دانی کے ڈھول کا پول۔