۱… ’’جس امر کی نظیر نہ پائی جائے اس کو خارق عادت کہتے ہیں۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ ص۱۹، خزائن ج۲ ص۶۷)
۲… ’’خارق عادت اسی کو تو کہتے ہیں جس کی نظیر دنیا میں نہ پائی جائے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۹۶، خزائن ج۲۲ ص۲۰۴)
۳… ’’ظاہر ہے کہ کسی امر کی نظیر پیدا ہونے سے وہ امر بے نظیر نہیں کہلا سکتا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۶۹، خزائن ج۱۷ ص۲۰۳)
اب آپ خود ہی فیصلہ کرلیجئے کہ لیکھرام کا قتل بے نظیر ہے یا نہیں۔ ناظرین! یہ تھا مرزاقادیانی کی دوسری پیش گوئی کا انجام۔
یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ لیکرام کے قتل کے بعد مرزاقادیانی کو اپنی جان کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا تھا اور آنجناب کے دردولت کی تلاشی بھی ہوئی۔ (استفتاء ص۲، خزائن ج۱۲ ص۱۱۰)
اور آپ نے انگریزی عدالت میں درخواست بھی دی تھی کہ میری حفاظت کے لئے سپاہی مقرر کر دئیے جائیں۔ (تبلیغ رسالت ج۶ ص۶۷، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۶۹)
مرزاسلطان محمد کی موت کا الہام، اصل معاملہ کیا تھا؟
تیسری متحدیانہ پیش گوئی مرزاسلطان محمد کی موت کے متعلق تھی۔ یہ صاحب کون ہیں اور ان کے لئے الہام کیوں گھڑا گیا اور نتیجہ کیا نکلا اس کے لئے حسب ذیل اشتہارات ملاحظہ فرمائیے۔ آپ اس کتاب کی ابتداء میں پڑھ آئے ہیں کہ مرزاقادیانی کے ننہال ضلع ہوشیار پور کے رہنے والے تھے۔ بعدہ مرزاقادیانی کی چچازاد ہمشیرہ آپ کے ماموں زاد بھائی مرزااحمد بیگ ہوشیار پوری کے ساتھ بیاہی گئی اور مرزااحمد بیگ کی ہمشیرہ کی شادی مرزاقادیانی کے چچازاد بھائی غلام حسین سے ہوئی۔ غلام حسین لادلدہی مفقود الخبر ہوگیا۔ جس کی زمین کا حق مرزاقادیانی کو پہنچتا تھا۔ لیکن مرزااحمد بیگ اپنی ہمشیرہ کی مرضی سے اس زمین کو اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام منتقل کرانا چاہتے تھے۔ چونکہ اس انتقال پر مرزاقادیانی کے دستخط ضروری تھے۔ چنانچہ مرزااحمد بیگ دستخط کرانے کے لئے مرزاقادیانی کے پاس آیا۔ مرزاقادیانی نے اس وقت تواستخارہ کے بہانے ٹال دیا۔ لیکن چند دن بعد ان کو خط لکھا کہ میں ہبہ نامہ پر دستخط اس شرط پر کروں گا کہ آپ اپنی ۸،۹سالہ کنواری لڑکی محمدی بیگم کا نکاح مجھ (۵۰سالہ بوڑھے) سے کردو۔ مرزااحمد بیگ نے اس مطالبہ کو اپنی غیرت اور شرافت کے لئے ایک چیلنج سمجھا اور زمین مذکورہ پر لات مارتے ہوئے لڑکی کا رشتہ دینے سے صاف طور پر انکار کر دیا۔ بلکہ مرزاقادیانی کا وہ تہذیب اور انسانیت سے گرا ہوا خط اخبار میں شائع کرادیا۔ بس پھر کیا تھا۔ مرزاقادیان نے جوش میں آکر کہہ دیا۔